ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عثمان بزدار کا انجام جہانگیر ترین جیسا ہونیوالا ہے

datetime 26  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)بزدار صاحب کے خلاف یہ پروپیگنڈا بھی شدت کے ساتھ کیا گیا کہ وہ میڈیا سے گھبراتے ہیں اور یہ کہ ٹی وی انٹرویوز نہیں دے سکتے حالانکہ وہ ماضی میں ٹی وی انٹرویوز دے چکے ہیں اور ابھی کل ہی تیز طرار اور سمجھدار اینکر منیب فاروق کو انٹرویو دیا۔ روزنامہ جنگ میں شائع سینئر صحافی سلیم صافی اپنے کالم میںلکھتےہیں کہ ۔۔۔۔اس کے برعکس خیبر پختونخوا کے

وزیراعلیٰ محمود خان نے آج تک کسی قومی ٹی وی چینل کو انٹرویو نہیں دیا لیکن ان کا نام کوئی نہیں لے رہا ۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے انٹرویوز دئیے ہیں لیکن وہ بھی صرف من پسند اینکرز کو شاید پہلے سے معاملات طے کرکے انٹرویو دیتے ہیں۔ بزدار صاحب کئی بار پریس ٹاک بھی کرچکے ہیں ، جہاں وہ مختصر مگر اچھے جواب دیتے ہیں جبکہ منیب فاروق کے انٹرویومیں بھی انہوں نے اچھے جواب دیئے لیکن محمود خان کبھی بھی منیب فاروق جیسے اینکر کے سامنے بیٹھنے کی ہمت نہیں کریں گے۔کارکردگی کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ اعتراض عثمان بزدار پر ہورہا ہے حالانکہ آپ کسی بھی معیار پر پرکھیں تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی ، بزدار صاحب سے کئی گنا زیادہ خراب ہے۔بزدار صاحب نے نیا کچھ نہیں کیا ہوگا لیکن پہلے سے بنی بنائی چیزوں کو بھی تو تباہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس خیبرپختونخوا میں پہلے سے قائم اداروں کو تباہ کیا گیا۔ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔بی آر ٹی پر اگر پرویز خٹک نے چھ ماہ لگانےتھے تو محمود خان نے ڈیڑھ سال لگادیا حالانکہ پرویز خٹک کے دور میں بنیادی اسٹرکچربن چکا تھا۔ یونیورسٹیاں تباہی سے دوچار ہیں۔ امن و امان کی حالت ابتر ہے۔ پولیس میں سیاسی اور غیرسیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی ہے ۔

ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح پنجاب سے بہت کم ہے ۔جبکہ بلوچستان تو ہر حوالے سے تباہ حال ہے لیکن سیاست اور میڈیا میں تذکرہ صرف پنجاب اور بزدار صاحب کا ہوتا ہے ۔اسی طرح بزدار صاحب کی بعض خوبیوں کو بھی میڈیا نے خامی بنا دیا ہے۔ مثلا ان میں تکبر نہیں اور وہ عجز و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ الٹاان کی اس خوبی کو تو میڈیا میں خامی بنا دیا گیا ہے لیکن باقی دو وزرائے اعلیٰ کے

ہاں تکبر نظرآتا ہے ۔ ایک میں قول کا اور دوسرے میں قول کا نہیں لیکن عمل کا تکبر آگیاہے۔تاہم اصل زیادتی بزدار صاحب کے ساتھ اب ہونے جارہی ہے لیکن میڈیا یااہل سیاست کے ہاتھوں نہیں ۔مذکورہ سب خامیوں کے باوجودمحمود خان کی وزارت اعلیٰ کو کوئی خطرہ ہے اور نہ جام کمال کی وزارت اعلیٰ کو۔ خطرہ ہے تو عثمان بزدار کو ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ

ان کا انجام بھی جہانگیر ترین جیسا ہونے والا ہے لیکن کرنے والے مختلف ہوں گے ۔ جہانگیر ترین کے ساتھ جوکچھ ہوا ، وہ خود خان صاحب نے کیا لیکن بزدار صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوگا، وہ خان صاحب نہیں کچھ اور لوگ کریں گے ۔ دیکھتے ہیں یہاں بھی بزدار صاحب کا جادو چلتا ہے یا نیب کے جادوگروں کاجادو ان کے جادو کو شکست دے دیتا ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…