اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ عسکری وفدد ورہ سعودیہ مکمل کرکے واپس آگیا ہے، تاہم اس دورے کے دوران ان کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔سینئر صحافی رئوف کلاسرا کے ہمراہ ویڈیو بلاگ میں سینئر صحافی عامر متین کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے جو خبریں آرہی ہیں اس کے مطابق حالات
مزید خراب ہونے سے رک گئے ہیں۔مگر ابھی بہتر نہیں ہوئے اور نہ ہی پہلی سطح پر آئے ہیں، گزشتہ 5 سے 7 ماہ کے دوران پاک سعودیہ تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کو تاثر ملا ہے کہ پاکستان کا ترکی اور ایران کی جانب جھکا ئوبڑھ رہا ہے اور اس سے سعودی عرب نظر انداز ہورہا ہے۔عامرمتین نے کہا کہ عسکری قیادت ملٹری ٹو ملٹری معاملات کو دیکھتی ہے، مگر سب جانتے تھے کہ آرمی چیف کے دورہ سعودیہ میں سفارتی معاملات بھی طے ہوں گے، مگر ایسا ہو نہیں پایا، سعودی عرب کی جانب سے کسی قسم کے مالی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا۔رئوف کلاسرا نے کہا کہ خبروں کے مطابق محمد بن سلمان نے پاکستان کے آرمی چیف کے دورہ سے متعلق اپنی ٹیم کے ساتھ 3 گھنٹے طویل میٹنگ کی ، اس میٹنگ میں محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان بھی شریک تھے جو سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع بھی ہیں،انہوں نے بعد میں آرمی چیف سے ملاقات بھی کی، لیکن اس دورہ اور ملاقاتوں سے متعلق کوئی مشترکہ اعلامیہ سامنے نہیں آیا ، ایسا تاثر ملا ہے کہ ابھی تک معاملات زیر التوا ہیںاور ممکن ہے ایک ، دو ماہ کے دوران آرمی چیف ایک بار پھر سعودی عرب کا دورہ کریں اور تیسری اہم چیز جس وقت سعودی عرب میں آرمی چیف کی ملاقاتیں جاری تھیں اس وقت وزیر خارجہ نے قطر کے سفیر کے ساتھ دفتر خارجہ میں ملاقات کی۔
جس کی وجہ سے سعودی عرب نے سرد مہری کو برقرار رکھا ہے۔رئوف کلاسرا کا مزیدکہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی وفد کو شکایات کی گئیں کہ ترکی اور طیب اردگان جس کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کوئی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان اس کے ساتھ تعلقات کو
ایک نئی شکل دے رہا ہے۔یہ معاملہ اس وقت سے خراب ہونا شروع ہوا جب اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران عمران خان نے طیب اردوگان کو خراج تحسین پیش کیا، پاکستان کو ترکی اور ایران کے ساتھ نئے سفارتی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے سعودی عرب کے بلاک میں رہنا چاہیے۔