اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے نیا انکشاف کیا ہے کہ پائلٹس کے لائسنس لینے کا غلط طریقہ استعمال کیا گیا جس میں کسی اور کو بٹھا کر امتحانات دئیے گئے۔جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد سول ایوی ایشن نے ڈگریاں خود چیک کرنا شروع کیں، بہت سارے پائلٹس کے لائسنس مشکوک تھے
جن میں سے کچھ پائلٹس نے مانا کہ ان سے غلطی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ لائسنس امتحانات میں غیرشفاف طریقہ کار استعمال کیا گیا، فروری 2019 میں ہم نے تحقیقاتی بورڈ بنایا، فارنزک انکوائری ہوئی، تحقیقات میں ایک سال 4 ماہ لگے، وزیراعظم کو رپورٹ دی گئی کہ 262 پائلٹس کے لائنسنس مشکوک تھے، ان میں سے 28 پائلٹس پرثابت ہوگیا کہ انہوں نے غلط طریقے سے لائسنس لیے جس کے بعد ان کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔غلام سرور خان نے بتایا کہ لائسنس تو سی اے اے نے جاری کیے، سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ 262 جعلی مشکوک ہیں جس پر سپریم کورٹ نے سخت ایکشن لینیکے لیے کہا، لائسنس اتھارٹی کے 5 لوگوں کی معطلی ہوئی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ بات یہاں نہیں رکے گی، منطقی انجام تک جائے گی، کس کس نے سہولت کاری کی اور کچھ لین دین ہوا ہوگا، امتحان کس کی جگہ کس نے بیٹھ کردیا، جس نے کسی کی جگہ بیٹھ کرامتحان دیا اس پر کرمنل مقدمہ درج ہوگا، ایک ممبر کو ہم نے ٹاسک دیا ہے جو رضاکارانہ طور پربھی کام کررہا ہے، ہم نے سہولت کار اور مجرم تک پہنچنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پائلٹس کے معاملے پر بدنیتی نہیں ہے، دس ممالک نے پائلٹس لائسنس کی تصدیق کا کہا، غیر ملکی ائیرلائنز پر کام کرنے والے پائلٹس کی بھی تصدق کی، لائسنس لینے کاغلط طریقہ استعمال کیا گیا، کسی اور کو بٹھا کر امتحانات دئیے گئے۔غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ہم نے پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرنی لہٰذا پی آئی اے نجکاری فہرست میں نہیں لیکن ادارے کی دوبارہ تشکیل نو کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ سی ای او پی آئی اے کے لیے اشتہار کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، گزشتہ 10 سال میں 11 سی ای او پی آئی اے تبدیل ہوئے، سیاسی طور پر یونین اثرو رسوخ استعمال کرتی تھیں، ہمارا پورا جہاز چلا گیا جو جرمنی میں کھڑا ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قوم نے ہمیں صفائی کا مینڈیٹ دیا ہے لہٰذا صفائی کا عمل جاری رہے گا اور احتساب بلا تفریق ہو گا جب کہ احتساب وفاقی کابینہ کا بھی ہونا چاہیے۔