اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیل ملز کے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے حکومتی منصوبے پر سوالات اٹھا دیئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ملازمین کو نہیں نکالا جا سکتا، سٹیل مل سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستان سٹیل ملز کے
ملازمین سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے سٹیل مل سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ زیادہ ہوشیاری اسٹیل مل انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے اسٹیل مل کے تمام ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کو اس طرح نکالا تو 5ہزار مقدمات بن جائیں گے۔ وکیل اسٹیل مل ملازمین نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین کی برطرفی کیلئے 40 ارب درکارہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہ ہو اسٹیل مل انتظامیہ کو برطرف کیے گئے ملازم ہی دوبارہ رکھنے پڑیں،اسٹیل ملز انتظامیہ زیادہ ہوشیاری دکھائے گی تو یہ انہی کے گلے پڑے گی،چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے کہا کہ حکومت جو کرنے جا رہی ہے اس سے تباہی پھیلے گی،آپ اس معاملے کو انتہائی برے طریقے سے دیکھ رہے ہیں،حکومت اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر کیوں کھڑی نہیں ہو پا رہی،عدالت آپ کو سہارا نہیں دے سکتی،آپ کو اندازہ ہی نہیں وہ کیا کر رہی ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ایک موقع پر کہا کہ آپ کا منصوبہ یہ ہے کہ 95 فیصد ملازمین کو نکالا جائے گا اور کنٹریکٹ پر نئے ملازمین بھرتی ہوں گے، اس وقت اسٹیل ملز ملازمین کے ہائیکورٹس میں 320 اور سپریم کورٹ میں 29 مقدمات زیر سماعت ہیں۔عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیل ملز سے نئی رپورٹ طلب کرتے ہوئے فریق مقدمہ کے وکیل کامران مرتضیٰ کی علالت کے باعث سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔