ہفتہ‬‮ ، 18 جنوری‬‮ 2025 

جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونیوالے خطرناک وائرس’’ زوناٹک‘‘ سے دنیا پریشانی میں مبتلا ہو گئی ، کرونا وائرس کی طرح زوناٹک وائرس کے آنے سے کس چیز کا خدشہ بڑھ گیا ہے ؟ ماہرین نے چونکا دینے والے انکشافات کر دیئے

datetime 10  مئی‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن )جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے خطرناک وائرس’’ زوناٹک‘‘ پر دنیا پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے ،چند سالوں میں کرونا وائرس کی طرح زوناٹک وائرس کے آنے سے جانوروں کو بھی تلف کیے جانیکا امکان ہے ۔معلومات کے مطابق جانوروں کی ہر قسم میں انوکھے اور خطرناک وائرس پائے جاتے ہیں جو کہ اس خاص قسم کے جانور کو ہی عموماً متاثر کرتے ہیں مگر وقت کے

ساتھ ساتھ ان میں سے کچھ وائرس انسانوں میں بھی منتقل ہوگئے جنہیں “زوناٹک وائرس” کہا جاتا ہے۔جیسے جیسے انسانوں کی آبادی بڑھتی گئی تو انسان ویرانوں کو آباد کرتا گیا جس کی وجہ سے اس کا جانوروں کے ساتھ رابطہ بھی بڑھ گیا جوکہ عموماً نہیں ہوتا۔وائرس جانوروں سے انسانوں میں بالکل اسی طرح منتقل ہو سکتے ہیں جس طرح وہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہی یعنی رطوبتوں، خون، فضلے یا پیشاب کے ذریعے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وائرس زندہ نہیں ہوتے اس لیے انہیں پھیلنے کے لیے زندہ خلیوں کو تلاش ہوتی ہے جن سے چمٹ کر یہ ان کے اندر داخل ہوتے ہیں جہاں سے یہ مزید پھیلتے ہیں۔چونکہ ہر وائرس ایک خاص قسم کے جانورکو ہدف بناتا ہے اس لیے ایک وائرس کا ایک قسم کے جاندار سے دوسری قسم میں منتقل ہونا غیرمعمولی ہے کیونکہ اس کے لیے انہیں ایک ارتقائی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔عام طور پر وائرس کسی نئے میزبان میں رہنے کے لیے تیاربھی نہیں ہوتے اس لیے یہ آسانی سے پھیلتے ہیں نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ وائرس اپنے اندر ایسی تبدیلیاں لاتے ہیں جن سے یہ پھیل سکیں۔اور جب کوئی وائرس کسی نئی قسم کے میزبان میں منتقل ہوتے ہیں تو یہ عمل “زوناسس” کہلاتا ہے اور عموماً انسانوں میں انتہائی سنگین بیماری پیدا کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی وائرس کا سب سے

پہلا میزبان جاندار اور وائرس ایک ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں لاتے ہیں لیکن جب وائرس کسی نئے میزبان میں منتقل ہوتا ہے تو اس میں اس وائرس سے نمٹنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی ہے۔مثلاً اگر ہم چمگادڑوں اور ان کے وائرسز سے رابطے میں آتے ہیں تو ہمیں ریبیز اور ایبولا وائرس کی بیماریاں لگ سکتی ہیں مگر چمگادڑیں بذات خود ان سے متاثر نہیں ہوتیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سامنے

آنے والے تین کورونا وائرس سارس کوو(2003)،مرس کوو (2012) اوراس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کرنے والا سارس کوو 2 یا کو وڈ 19بھی چمگادڑوں سے ہی پھیلے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ تینوں وائرس چمگادڑوں سے کسی دوسرے جانور (ممکنہ طور پر پینگولن یا سانپ وغیرہ) اور پھر ان سے انسانوں میں منتقل ہوئے مگر اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

موضوعات:



کالم



20 جنوری کے بعد


کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…