اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)شمالی کوریا کا سرکاری میڈیا اپنے ملک میں ہر چیز کے ٹھیک ہونے کا پیغام دے رہا ہے لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کی صحت کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق ان کی شدید بیماری کے ساتھ ان کی موت کے بارے میں بھی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ان کی صحت کے متعلق قیاس آرائیوں کا یہ دور 15 اپریل کے بعد
شروع ہوا کیوں کہ کم جونگ اُن اس دن اپنے دادا اور شمالی کوریا کے بانی کم اِل سونگ کی سالگرہ کی تقریبات میں شریک نہیں ہوئے تھے۔جنوبی کوریا اور امریکہ کی حکومتوں نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں ایسی کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کم جونگ ان شدید بیمار ہیں یا ان کی موت ہوگئی ہے۔ لیکن جب تک شمالی کوریا کی حکومت کے زیرکنٹرول میڈیا اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں کرتا اس وقت تک کم جونگ ان کے بارے میں افواہوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔اگر یہ افواہیں درست ہیں تو پھر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کی حیثیت سے کِم جونگ ان کی جگہ کون لے گا؟کم جونگ ان کی چھوٹی بہن کم یو جونگ کو شمالی کوریا میں ملک کے نئے رہنما کے لیے پہلی پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔31 سالہ کم یو جونگ اپنے بھائی کی طرح مغربی ملک سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ وہ پولٹ بیورو کی رکن ہیں اور ملک کے سب سے اہم پبلسٹی اینڈ موومنٹ ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی ہیں۔انھیں کِم جونگ ان کی ‘سیکرٹ ڈائری’ کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ ایسا خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم جونگ ان کے روز مرہ کے کام کاج میں بھی یو جونگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو پالیسی معاملات پر بھی مشورہ دیتی ہیں۔ کم یو جونگ نام نہاد ‘ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن کی رکن بھی ہیں جو کہ کم اِل سونگ کی براہ راست نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جن کا شمالی کوریا کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔
لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے غلطیوں کا زیادہ امکان رہتا ہے۔گذشتہ دنوں کِم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے دوران چھپ کر جھانکتی ہوئی ان کی تصویر کی وجہ سے کم جونگ ان کو سبکی ہوئی تھی۔ بہر حال کم یو جونگ نے پہلی بار اس طرح کی حرکت نہیں کی تھی۔لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا شمالی کوریا کسی
خاتون کی قیادت کے لیے تیار ہے؟ شمالی کوریا کے سیاسی اور معاشرتی نظام میں خواتین کا اہم کردار ہے لیکن طاقتور پوزیشن پر ان کی موجودگی انتہائی کم ہے۔ایسی صورتحال میں کیا وہ کِم خاندان کی رکن کی حیثیت سے پدرشاہی معاشرے کے چیلینج پر فتح حاصل کر سکیں گی؟کم جونگ ان کے بڑے بھائی کِم جونگ چول ہیں۔ ان کے والد نے انھیں شمالی کوریا کے مستقبل کے رہنما کی حیثیت سے تیار کیا تھا
لیکن کم جونگ چول نے فوج اور سیاست میں زیادہ جوش و خروش نہ دکھایا تو پھر اس کے بعد کم جونگ ان کو ان کی جگہ دے دی گئی۔کم جونگ چول کو بھی عام طور پر عوام میں نہیں دیکھا جاتا ہے۔ انھیں سنہ 2015 میں لندن میں اس وقت دیکھا گیا تھا جب وہ اپنے پسندیدہ گٹارسٹ ایرک کالپٹن کے رائل البرٹ ہال میں منعقدہ ایک کنسرٹ میں نظر آئے تھے۔لیکن کیا انھیں ملک کی قیادت حاصل ہوگی؟ اس کا امکان بہت کم ہے۔
سابق بیوروکریٹ کم پیونگ ال شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے چچا ہیں یعنی شمالی کوریا کے دوسرے سپریم لیڈر کِم جونگ ام کے سوتیلے بھائی ہیں۔وہ شمالی کوریا کے پہلے سپریم لیڈر کِم اِل سونگ کے بیٹے کی حیثیت سے ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن کے رکن بھی ہیں۔ ایک زمانے میں انھیں کم جونگ ال کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا لہذا کم پیونگ ال کو چار دہائیوں تک مختلف یورپی ممالک میں بطور سفیر ملک سے
باہر رکھا گیا تھا۔کم پیونگ ال 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کے بعد گذشتہ سال پیانگ یانگ واپس آئے ہیں۔ ان کے قیادت سنبھالنے یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ’ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے‘۔نائب چیف مارشل چوئے ریونگ ہے کو کم جونگ ان کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں وہ شمالی کوریا کی پارلیمنٹ سپریم پیپلز اسمبلی کے صدر بھی ہیں۔70 سالہ چوئے ریونگ کو ملک کے سب سے طاقتور شخص کے طور پر
دیکھا جاتا ہے۔ کم جونگ ان کو سربراہ بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور بدلے میں کم جونگ ان نے انھیں بہت عزت بخشی ہے۔ سنہ 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے کچھ مہینوں بعد چوئے ریونگ ہے کو بیک وقت متعدد پروموشن ملے۔ اس سے کم جونگ ان کی نظر میں ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔کم خاندان کے علاوہ چوئے ملک کے ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کے نام شمالی کوریا کے
سرکاری میڈیا میں باقاعدگی سے سنے اور دیکھے جاتے ہیں۔کیا شمالی کوریا میں کم خاندان کے باہر کا فرد بھی حکومت کا سربراہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو چوئے ریونگ ہے سربراہی کے مناسب دعویدار ہوسکتے ہیں۔ کم جونگ ان کے بے وقت جانے کی وجہ سے اگر ملک کی قیادت میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے لیے بھی چوئے موزوں ثابت ہوسکتے ہیں۔کِم نام ہونے کے بعد بھی کوریا کے
وزیر اعظم کِم جے ریونگ کم خاندان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ دراصل شمالی اور جنوبی کوریا دونوں جگہ کم ایک عام نام ہے۔سنہ 2016 سے پہلے زیادہ لوگ جے ریونگ کے بارے میں نہیں جانتے تھے لیکن اس کے بعد انھوں نے مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک سال قبل وہ شمالی کوریا کی پارلیمنٹ پہنچے اور اچانک ایک ماہ کے اندر ہی انہیں وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ انھوں نے پولیٹ بیورو کی
رکنیت حاصل کی اور انھیں سینٹرل ملٹری کمیشن میں بھی جگہ ملی۔کِم جے حکمراں خاندان کے فرد نہیں ہیں لیکن کِم خاندان کی جانب سے مناسب امیدوار کے نام کے سامنے آنے تک وہ اس کردار کے لیے موزوں سمجھے جا سکتے ہیں۔سنہ 1948 میں شمالی کوریا کے قیام کے بعد سے ہی وہاں کِم خاندان کے افراد کی حکومت رہی ہے۔ملک کے نئے قائد کا باضابطہ اعلان شمالی کوریا کی پارلیمنٹ سپریم پیپلز اسمبلی ہی کرتی ہے۔
لیکن ورکرز پارٹی اور ان کے حامیوں کے زیر اثر شمالی کوریا کی پارلیمنٹ کو ربڑ سٹامپ پارلیمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر باضابطہ اعلان سے مہینوں یا برسوں پہلے ہی رہنما کا انتخاب ہو جاتا ہے۔کِم جونگ ان کے والد کم جونگ اِل سنہ 1994 میں شمالی کوریا کے بانی اور اپنے والد کم اِل سونگ کی وفات کے بعد رہنما بنے تھے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران شمالی کوریا کی سیاست میں کِم خاندان کے
اہم کردار کو یقینی بنایا۔انھوں نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جس میں یہ کہا گیا کہ کِم خاندان کوریائی تہذیب کی پرورش کرنے والے مقدس کوہ آتش فشاں پیکٹو کے عظیم خاندان میں سے ایک ہے۔ انھوں نے اپنے خاندان کو اس مقام پر پہنچا دیا جس کے متعلق یہ عقیدہ بن گیا کہ اس خاندان کے لوگ حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔کِم اِل سونگ نے کم جونگ اِل کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ اور پھر کِم جونگ اِل نے اپنے بیٹے کِم جونگ ان کو
اقتدار سونپ دیا۔کم جونگ ان کی اپنی فیملی ہے لیکن اب تک ان کی کسی اولاد کو عوام میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ اور نہ ہی کسی کو اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شمالی کوریا کے عوام کم جونگ ان کے بچوں کا نام تک نہیں جانتے۔شمالی کوریا میں کم جونگ ان کی جگہ لینے کے لیے کسی کو بھی ممکنہ رہنما کے طور پر تیار نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں کِم کی بے وقت رخصتی سے ایک خلا پیدا ہوگا جس کو پورا کرنا مشکل ہوگا۔