اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’’ضمیر کا بوجھ اور ایس ایم ظفر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔موت ہمارے سامنے کھڑی ہے لیکن ہم میں سے اکثر عقل مندوں کا خیال ہے کہ میں تو نہیں مروں گا البتہ دوسروں کے مرنے کا بہت خدشہ ہے۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بدل دیا ہے لیکن اہلِ پاکستان ابھی تک نہیں بدلے۔ وائرس سے بچنے کیلئے ماسک تو پہنا جا رہا ہے لیکن ماسک پہن کر
ھوٹ بولنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تادمِ تحریر دنیا میں بیس لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہیں اور سوا لاکھ سے زائد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک پاکستان میں چھ ہزار کے قریب افراد اس وبا کی لپیٹ میں آئے اور مرنے والوں کی تعداد ابھی سو سے کچھ اوپر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت لاک ڈائون میں نرمی کے اعلانات کر رہی ہے، تاجر دکانیں کھولنے کیلئے بےچین ہیں اور علماء نے کچھ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں باجماعت نمازوں کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ خدانخواستہ امریکہ، اٹلی، اسپین اور برطانیہ کی طرح اس وبا نے پاکستان میں بھی تباہی مچا دی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ افسوس کہ لاک ڈائون پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ کچھ وفاقی وزیر سندھ کی صوبائی حکومت کی ایسی تیسی کر رہے ہیں اور سندھ کے وزیر وفاقی حکومت کو جواب دے رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں غریب لوگوں کیلئے امدادی کارروائیوں کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور کچھ لوگوں کے سر پر انتقام بھی سوار ہے۔