اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم ’’اب وہ کسی کام کا نہیں رہا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔زیادہ پرانی بات نہیں۔ 2002 کے الیکشن میں عمران خان میانوالی اور جہانگیر ترین رحیم یار خان سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے۔جہانگیر ترین مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر آئے تھے لیکن انہیں اُن کے سسرال نے کامیاب کرایا تھا کیونکہ اُن کے برادرِ نسبتی مخدوم احمد محمود بی اے کی ڈگری نہ ہونے کے باعث الیکشن نہ لڑ سکے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے تمام تر ریاستی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے نیب کے ذریعے پیپلز پارٹی میں ایک پیٹریاٹ گروپ بنایا اور اس گروپ کی مدد سے میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والا یہ پیٹریاٹ گروپ جمالی صاحب کی کابینہ میں آدھی سے زیادہ اہم وزارتیں لے اُڑا۔جہانگیر ترین وزارت سے محروم رہے تو اُن کا زیادہ وقت لاہور میں گزرنے لگا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے اُنہیں اپنا مشیر بنا لیا کیونکہ اس سے پہلے وہ شہباز شریف کے ساتھ بھی ایک ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت میں کام کر چکے تھے۔ جمالی صاحب کی جگہ شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو جہانگیر ترین کو وزیر صنعت بنایا گیا۔ وزیر صنعت بننے سے پہلے وہ ایک شوگر مل کے مالک تھے۔وزیر صنعت بننے کے بعد اُنہوں نے دو نئی شوگر ملیں قائم کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر بہت تنقید کرتے تھے اور جب کبھی جہانگیر ترین کو میرے پروگرام میں دیکھتے تو مجھ سے پوچھتے، سنا ہے یہ بڑا امیر آدمی ہے؟ میں کہتا، ہاں سنا ہے بڑا امیر آدمی ہے، تو خان صاحب کہتے کہ یہ ایک مافیا ہے جس نے سیاست پر قبضہ کر رکھا ہے تم اس مافیا کو اپنے شو پر نہ بلایا کرو، تمہاری ساکھ خراب ہوتی ہے۔ میں جواب دیتا کہ جناب یہ ترین صاحب یا اُن کے کزن ہمایوں اختر خان کابینہ میں شامل ہیں۔
مجھے حکومتی نقطہ نظر کے لئے انہی لوگوں کو بلانا پڑتا ہے۔خان صاحب اثبات میں سر ہلاتے اور کہتے کہ دیکھ لینا میں اس مافیا کو کلین بولڈ کر دوں گا۔ خان صاحب کی یہی باتیں سن کر بہت سے لوگ اُن کے دیوانے بن گئے۔2007میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر ہمیں ٹی وی اسکرین سے غائب کر دیا تو ہم سڑکوں پر آ گئے۔ روزانہ میرا پروگرام کسی نہ کسی سڑک پر ہوتا جس میں عمران خان نئے پاکستان کی نوید دیتے اور نوجوان گلے پھاڑ پھاڑ کر عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے۔2007کی وکلا تحریک نے عمران خان کی سیاست کو بڑی جلا بخشی لیکن 2008میں عمران خان کے ساتھ دھوکا ہو گیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ پیپلز پارٹی بائیکاٹ میں شامل نہ تھی۔ آصف زرداری نے نواز شریف کو بائیکاٹ ختم کرنے پر راضی کر لیا اور عمران خان الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔عمران خان پارلیمنٹ سے آئوٹ ہو گئے لیکن اُنہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں پر تنقید شروع کر دی۔ وہ ایک تیسری سیاسی قوت بننے میں کامیاب ہو گئے۔ جنوری 2011میں جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو سنجیدہ حلقوں میں تحریک انصاف کی اہمیت بڑھنے لگی۔
اکتوبر 2011میں تحریک انصاف نے مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے ایک بڑا جلسہ کیا تو ایک دن جہانگیر ترین نے مجھ سے پوچھا کہ تحریک انصاف کا کیا مستقبل ہے؟جہانگیر ترین مسلم لیگ (ق) سے مسلم لیگ فنکشنل میں آ چکے تھے اور با اثر سیاستدانوں کا ایک ہم خیال گروپ بنا کر تحریک انصاف پر قبضے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ میں نے اُنہیں نہیں بتایا کہ عمران خان نے مجھے اُن کے بارے میں کیا کہا تھا لیکن یہ ضرور کہا کہ تحریک انصاف آپ کے مزاج کی پارٹی نہیں۔وہ مسکرائے اور کہا کہ عمران خان بڑا محنتی ہے اُسے ڈائریکشن کی ضرورت ہے۔ دسمبر 2011میں جہانگیر ترین نے اویس لغاری، جمال لغاری، غلام سرور خان اور اسحاق خاکوانی وغیرہ کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔
کچھ دن کے بعد امیر مقام کو تحریک انصاف میں لانے کے معاملے پر عمران خان اور اویس لغاری میں بحث ہو گئی۔عمران خان نے کہا کہ مجھے امیر مقام جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔ اویس لغاری نے سمجھانے کی کوشش کی۔ خان صاحب نے کہا تمہیں سیاست کا پتا نہیں۔ اویس لغاری نے کہا اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ایک بات کہوں۔ خان صاحب نے کہا، بالکل کہو۔ سردار فاروق احمد خان لغاری کے برخوردار نے کہا کہ آپ ایچی سن کالج میں میرے سینئر تھے۔بڑے احترام سے عرض ہے کہ آپ کا دماغ کنکریٹ سے بھرا ہوا ہے، خدا حافظ۔ اویس لغاری تحریک انصاف چھوڑ گئے، جہانگیر ترین وہیں رہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی میں الیکشن کرایا تو جہانگیر ترین سیکرٹری جنرل بن گئے۔ پارٹی کے پرانے لوگوں نے اس الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کی تو عمران خان نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں انکوائری ٹربیونل بنا دیا۔ ٹربیونل کے سامنے گواہ اور ثبوت آ گئے کہ پارٹی الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور ووٹ خریدے گئے۔ٹربیونل نے اپنے تحریری فیصلے میں جہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان اور نادر لغاری کو پارٹی سے خارج کرنے کی سفارش کی لیکن عمران خان نے اپنے ہی بنائے گئے اس ٹربیونل کی رپورٹ مسترد کر دی۔
سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد کو اتنا خوار کیا گیا کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ گئے۔ 2017میں جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے وجیہ الدین احمد کو سچا ثابت کر دیا لیکن عمران خان نے جہانگیر ترین کو گلے لگائے رکھا۔ 2018میں عمران خان وزیراعظم بن گئے تو جہانگیر ترین نے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ڈپٹی پرائم منسٹر کا کردار ادا کرنے لگے۔عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ذریعہ جہانگیر ترین کی سرکاری معاملات میں مداخلت بند کرانے کی کوشش کی تو دونوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔
سب سے پہلے جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بی این پی (مینگل) کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں سے نکالا گیا اور پھر واجد ضیا رپورٹ کی روشنی میں اُن کے خلاف کارروائی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔واجد ضیا رپورٹ وہی کہہ رہی ہے جو وجیہ الدین احمد کہہ رہے تھے۔ آج دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو ماضی میں کسی حکمران نے نہیں کیا۔سوال یہ ہے کہ جب جہانگیر ترین کے بارے میں یہی کچھ وجیہ الدین احمد نے کہا تو آپ نے کارروائی کیوں نہ کی؟ کیا جہانگیر ترین کو جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا، اب وہ کسی کام کا نہیں رہا؟