نائیجریا(نیوزڈیسک)نائیجیریا میں اراکینِ پارلیمنٹ کو کپڑے خریدنے کے لیے وظیفہ دینے کی مبینہ تجویز کی اطلات سامنے آنے کے بعد عام لوگ انٹرنیٹ پر اپنے غصے اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔سیاستدانوں کی بھاری تنخوائیں کو پہلے ہی عوام کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا ہے۔نائیجریا میں شہریوں کی کم سےکم سالانہ اجرت تقریباً ایک ہزار ڈالر ہے جبکہ اس کے برعکس اراکینِ پارلیمنٹ کی سالانہ تنخواہ تقریباً دولاکھ ڈالر مقرر ہے۔جب مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات آئیں کہ اب سیاستدانوں کو کپڑے خریدنے کے لیے الگ وظیفہ دیا جائےگا اور حکومت نے اس سلسلے میں چار کروڑ ڈالر کی رقم کی بھی مختص کردی ہے تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اس حوالے سے ٹوئیٹ کرنا شروع کردیا۔دوسری جانب حکومت نے ان اطلات کو غلط قرار دیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ کو فی کس صرف ڈھائی ہزار ڈالر دیے جائیں گے۔لیکن ان اطلات کے سامنے آنے کے بعد ملک میں سرکاری اخراجات میں شفافیت سے متعلق بحث دوبارہ چھڑ گئی ہے۔اس رقم سے لاکھوں غریب بچوں کے تعلیم کے اخراجات برداشت کیے جاسکتے ہیں۔اس حوالے سے ایک شخص نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’چاہے پانچ لاکھ دیے جائیں یا پانچ ہزار ان سیاستدانوں کو اس رقم کی ضرورت نہیں، یہ پیسے کا ضیاع ہے۔‘ایک اور شخص نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ’ نائیجیریا کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جبکہ ہمارے سیاستدانوں کو دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔‘فیس بک پر اس حوالے سے ایک پیغام گردش کر رہا ہے جس کے مطابق ملک کے ایک عام شہری کو سیاستدانوں کی سالانہ تنخواہ کے برابر کمانے کے لیے سولہ سو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔انٹرنیٹ پر اس وظیفے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا جلد سٹرکوں پر بھی اس حوالے سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ تھا۔لیکن اسے کچھ عرصہ کے لیے موخر کردیا گیا ہے اموجوا جو ایک صحافی ہیں اور اس سلسلے میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کر رہے تھے، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ حکومت کو تنخواہوں کے نظام میں اصلاحات لانے کے تین ماہ کی ڈیڈ لائن دے رہے ہیں۔’ پارلیمنٹ کو موجودہ اقتصادی حالات کا اندازہ نہیں ہے اس لیے اب ہم شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کو اس بارے میں سمجھائیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس رقم سے لاکھوں غریب بچوں کے تعلیم کے اخراجات برداشت کیے جاسکتے ہیں۔ملک میں پیسے کی شدید قلت ہے اس لیے سیاستدانوں کی تنخواہوں پر نظرِ ثانی اور اخراجات کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔‘