اسلام آباد(نیوزڈیسک ) ہندوستانی ریاست مہاراشٹر بالخصوص ممبئی کے شہریوں کو اب چلتے پھرتے تھوکنے کی عادت ترک کرنی ہوگی، اس لیے کہ یہ عادت انہیں مہنگی پڑجائے گی۔ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت راستے میں تھوکنے والے شخص کو ایک ہزار روپے جرمانے کے ساتھ تھوکنے کی سزا کے طور پر کسی سرکاری ہسپتال یا دفتر میں سوئپر کے طور پر صفائی کا کام بھی کرنا ہوگا۔اس قانون کے مطابق پہلی مرتبہ کسی عوامی جگہ پر تھو67تے پکڑے جانے پر ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک دن کی سماجی خدمت کی سزا ہوگی جبکہ دوسری بار قانون توڑنے پر تین ہزار روپے جرمانہ اور تین دن کی سماجی خدمت کی سزا ہوگی۔تیسری مرتبہ میں جرمانہ پانچ ہزار روپے تک بڑھ جائے گا، اور سماجی خدمت بھی پانچ دن کی ہو جائے گی۔اس قانون کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جرمانے کی اس رقم کو صحت کی خدمات کو بہتر بنانے میں صرف کیا جائے گا۔ریاستی کابینہ اجلاس کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فیڈناو?س نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی صدارت وزیر صحت ڈاکٹر دیپک ساونت کریں گے۔مہاراشٹر کے وزیر صحت ڈاکٹر دیپک ساونت کئی مہینوں سے اس قانونی مسودے کو تیار کرنے پر کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون اگلے چھ مہینے کے اندر اندر نافذ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ تھوکنا یا تمباکو چبانے اور تمباکو کی مصنوعات کی فروخت کے حوالے سے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی اس سے پیدا ہونے والی گندگی سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر دیپک نے کہا کہ اگر کوئی شخص عوامی مقامات پر تھو67تا ہے، تو اسے جرمانہ ادا کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن ایک امیر آدمی کے لیے یہ جرمانہ کافی نہیں ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسے شخص کو ایک دن صفائی کرنے والے سرکاری ملازم یا سوئپر کے طور پر کام کرنے کی سزا بھی دی جائے، تب ہی اسے سبق حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ڈرائیور گاڑی سے تھوکتا ہے، تو کم از کم ایک ماہ کے لیے اس کالائسنس معطل کردینا چاہیے۔ ڈاکٹروں کے مطابق عوامی مقامات میں تھوکنا تپ دق جیسی بیماریوں کے پھیلنے کی سب بڑی وجہ ہے۔ اس پر پابندی عائد کرنا بہت ضروری ہے۔ڈاکٹر دیپک نے کہا کہ اگرچہ یہ مسئلہ صرف مہاراشٹر کا ہی نہیں ہے، ہندوستان کے تقریباً ہر شہر میں ہی لوگ پان، گٹکا وغیرہ کھانے کے بعد عوامی مقامات پر ہی تھوک دیتے ہیں، لیکن اگر مہاراشٹر میں اس کے خلاف قانون بن جاتا ہے، تو دوسری ریاستوں میں بھی ایسے قوانین کی تشکیل کا آغاز ہوسکتا ہے۔