ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بی جے پی کاخطرناک’مشن 44 پلس، پڑھنے کیلئے کلک کریں

datetime 19  ‬‮نومبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرینگر۔۔۔۔’جو پارٹی ابھی تک وادء ی کشمیر میں ایک سیٹ بھی نہ حاصل کر سکی وہ اس بار کے انتخابا ت میں تاریخ رقم کرے گی۔ دسمبر میں سری نگر میں جو حکومت بنے گی وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہوگی۔‘
یہ خیالات ہیں بی جے پی کے سینیئر رہنما اور پالیسی ساز پروفیسر ہری اوم کے جو ان دنوں جموں میں رات دن مصروف ہیں۔بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی 87 رکنی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم اس وقت زوروں پر ہے۔ پروفیسر ہری اوم کے ساتھ بی جے پی کے سینکڑوں رہنما اور کارکن جموں اور لداخ خطے کے 41 حلقوں میں دن رات کام کر رہے ہیں۔پروفیسر ہری اوم کہتے ہیں: ہم نے ہر انتخابی حلقے کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے ’مشن 44 پلس‘ بنایا ہے۔کشمیر کے انتخابات میں بی جے پی پہلی بار پوری سنجیدگی اور طاقت کے ساتھ اتری ہے اور اس کی حمایت کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ پارٹی ریاست میں اقتدار میں آنے کے لیے خاموشی کے ساتھ کئی برس سے سر گرم ہے۔اس کی توجہ ہندو غلبے والے جموں اور لداخ خطے کی 41 نشستوں پر مرکوز ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں اسے یہاں غیر معمولی کامیابی ملی تھی۔مسلم غلبے والی کشمیر وادی میں46 نشستیں ہیں۔ یہاں بی جے پی کو کئی انتخابی حلقوں میں بے گھر ہونے والے پنڈتوں کے ووٹ اور علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ کی اپیل سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ حبہ کدل، امیرا کدل، سوپور، بیج بہرہ اور اننت ناگ جیسی کئی سیٹوں پر وہ بہت پر امید ہے۔سری نگر کے راج باغ میں واقع بی جے پی کے دفتر میں پارٹی کے حامیوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے۔ دہلی سے بڑے بڑے رہنما روزانہ یہاں پہنچ رہے ہیں۔امیرا کدل حلقے سے بی جے پی کی امیدوار حنا بھٹ ان دنوں گھر گھر جا کرلوگوں سے رابطہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’لوگوں کی جانب اچھی حمایت مل رہی ہے۔ عوام یہاں کی بد انتظامی اور کرپشن سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہمارا ایجنڈہ سیاست نہیں ایک بہتر اور شفاف حکومت اورترقی ہے۔‘بی جے پی کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں گوجر اور بکروال جییسی غریب اور پسماندہ مسلم برادریوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔پارٹی کے سیاسی حریف بھی اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بی جے پی اب ریاستی انتخاب میں پہلی صف کی پارٹی بن چکی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سینئر رہنما نعیم اختر نے کہا: ’کانگریس اور نیشنل کانفرنس جیسی روایتی جماعتیں انتخاب سے باہر ہو چکی ہیں۔ انتخابی مقابلہ صرف پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان ہے۔‘لوک سبھاکے انتخابات کے بعد بی جے پی تیزی سے آگے بڑھی ہے۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بی جے کی حمایت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ پہلی بار بی جے پی وادی کی زیادہ تر سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔سری نگر کے راج باغ میں واقع بی جے پی کے دفتر میں پارٹی کے حامیوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے۔ دہلی سے بڑے بڑے رہنما روزانہ یہاں پہنچ رہے ہیں۔ جگہ جگہ اردو میں بی جے پی کے پوسٹر اور بینرز لگے ہوئے ہیں۔
وید بھسین جیسے سینئیر تجزیہ نگار یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بی جے پی کشمیر میں اقتدار میں آ سکتی ہے۔مودی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ یہ نعرہ لکھا ہوا ہے ’چلو چلیں مودی کے ساتھ ، بدلیں جموں و کشمیر کے حالات‘۔ حالیہ دنوں میں دوسری جماعتوں کے کئی اہم رہنماؤں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔کئی چھوٹی پارٹیوں سے بی جے پی اتحاد کرنے والی ہے۔پارٹی کے ترجمان محمد الطاف ٹھاکر کہتے ہیں کہ ’مودی کے کام کرنے کے طریقے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے نعرے سے پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔ پورے ملک کی طرح لوگ یہاں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔‘لیکن وید بھسین جیسے سینئیر تجزیہ نگار یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بی جے پی کشمیر میں اقتدار میں آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’بی جے پی پہلے سے کچھ زیادہ سیٹیں لے آئیں گی۔ لیکن یہ سوچنا کہ وہ اقتدار میں آ جائے گی یہ خیال خام ہے۔ جموں میں ہندو مسلم پولرائزیشن سے اسے فائدہ ہوگا لیکن انتخابات میں فرقہ پرستی کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے پہلو ہوتے ہیں۔‘
دہلی، اتر پردیش، پنجاب اور ہماچل پردیش کے سیکڑوں چھوٹے بڑے بی جے پی رہنا ان دنوں جموں و کشمیر میں خیمہ زن ہیں۔ آر ایس ایس کے سینکڑوں کارکن ریاست میں کئی برس سے سر گرم ہیں۔
یپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنما نعیم اختر کے مطابق کانگریس اور نیشنل کانفرنس جیسی روایتی جماعتیں انتخاب سے باہر ہو چکی ہیں۔ انتخابی مقابلہ صرف پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان ہے۔آئندہ چند دنوں میں وزیر اعظم نریندر مودی ریاست میں کئی انتخابی ریلیوں کو خطاب کریں گے۔کشمیر مودی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بی جے پی نے انتخابات کے لیے جو حمکت عملی اختیار کی ہے اس کی گرمی کشمیر کی برفیلی فضا میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔بی جے پی کے سینیئر ترجمان ارون کمار گپتا کہتے ہیں ’کشمیر تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بی بے پی ریاست میں نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہے۔‘بعض ابتدائی جائزوں میں بی جے پی کے لیے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…