اسلام آباد(آن لائن) پاکستان سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف شکایت کی دوسرے ذریعے سے تصدیق ہوئی یا نہیں؟ صدارتی ریفرنس میں کڑی سے کڑی نہیں مل رہی،صدر مملکت وزارت قانون کو زبانی احکامات نہیں دے سکتے جسٹس منصو ر علی شاہ نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست پر سماعت کے دوران دئے
اس سماعت کے دوران سینئر وکیل ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے انکشاف کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف شواہد پہلے اکھٹے کیے گئے وحید ڈوگر نے شکایت بعد میں دائر کی،لاقانونیت کی بنیاد پر کھڑی عالی شان عمارت زمیں بوس ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتی،صدارتی ریفرنس کی بنیاد غیر قانونی ہے اسے خارج کیا جائے،وزیر اعظم عمران خان کو بھی ٹیکس معلومات حاصل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف بنائے گئے صدارتی ریفرنس میں شواہد اکھٹے کرنے کے عمل میں لاقانونیت برتی گئی،عوامی عہدوں پر کام کرنیوالوں کی ٹیکس معلومات خفیہ ہوتی ہیں،خفیہ معلومات وصول کرنے والے پر لازم ہے وہ ایسی معلومات کسی اور مقصد کیلئے بھی استعمال نہیں کر سکتا،انکم ٹیکس کا معاملہ خالصتاََ ٹیکس ادا کرنے والے اور ٹیکس کمشنر کے درمیان ہے۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے انکم ٹیکس قانون کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم عمران خان کوبھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ٹیکس افسر کو یہ کہیں فلاح شخص کی ٹیکس معلومات فراہم کریں،لاقانونیت پر کھڑی شاندار عمارت زمیں بوس ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتی،ریفرنس کی بنیاد ہی غیر قانونی ہے،پورا ریفرنس خارج کیا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے مزید کہا صدر مملکت کو شکایت پر آزادانہ ذہن استعما ل کرنا چاہیے تھا،یہ جائزہ بھی لینا چاہیے جج کیخلاف اکھٹے کیے شواہد بارے قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا شکایت کنندہ وحید ڈوگر سے یہ نہیں پوچھا گیا اْنھوں نے معلومات کیسے حاصل کیں۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک بولے ٹھوس شواہد پر انکوائری کا اختیار کونسل کو حاصل ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر کردہ شکایت کی دوسرے ذریعے سے تصدیق ہوئی یا نہیں؟شکایت یہ بھی نہیں لکھا گیا جج کی جائیداد کہاں ہے؟کیا صدر مملکت ایسی معلومات کو درست قرار دے کر آگے بھیج سکتے ہیں۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں کہا وزیر اعظم،چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ شہزا د اکبر کو بھی یہ اختیار نہیں وہ ایف بی آر سے معلومات حاصل کرے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے دلائل میں کہا چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ کو یہ حق حاصل نہیں وہ نادرا سے ڈیٹا حاصل کرے،انتظامیہ جج کیخلاف تحقیقات نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اخترنے کہا تحقیقات کی اتھارٹی کون سی ہے؟ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے جواب دیا ایف بی آر۔ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے دلائل میں کہا جسٹس قاضی عیسیٰ کے ٹیکس گوشوارے،اہلیہ اور بچوں کے نام جائیدادیں تسلیم شدہ ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا صدارتی ریفرنس میں کڑی سے کڑی نہیں مل نہیں،صدر اور وزارت قانون کے درمیان خطوط کی پوری زنجیر ہونی چاہیے،صدر وزارت قانون کوزبانی احکامات نہیں دے سکتے،زبانی احکامات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت کو قائل ہونا چاہیے کہ بادی النظر میں مقدمہ بنتا ہے۔ کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔