بیروت(این این آئی)لبنان میں مہنگائی ، بے روزگاری اور معاشی عدم توازن کے خلاف احتجاج کے جلو میں لبنانی بنکوں سے بھاری رقوم کی بیرون ملک منتقلی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔لبنان کے ایک پارلیمانی ذریعے نے عرب ٹی وی کو بتایاکہ بینک بند کیے جانے سے قبل تین ارب ڈالر کی خطیر رقم
بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ ان میں سے 20 کروڑ ڈالر کی رقم ایک ہی بار بیرون ملک بھیجی گئی۔لبنان کے مرکزی بینک نے اپنی نگرانی میں کام کرنے والے لبنانی بینکوں سے کہا کہ وہ بنیادی نجی ایکویٹی اور مشترکہ اسٹاک ہولڈرز کے حقوق سے ممکنہ گراوٹ کی تیاری میں 20 فی صد تک اضافہ کرے اور عالمی ضروریات کے پیش نظرمنافع کی شرح 8 فی صد تک رکھیں۔یہ اضافہ امریکی ڈالر اور دو مراحل میں ہوگا۔ پہلے اس سال کے آخر میں 10 فی صد، اور دوسرا اگلے سال جون کے آخر تک اسی طرح کی ڈیڈ لائن سے ہوگا۔ اس فیصلے سے بینکوں کے سرمائے کو 4 ارب ڈالر کا تقویت ملے گی۔مظاہروں کے پھوٹ پڑنے کے بعد دو ہفتوں کی بندش کے بعد گذشتہ جمعہ کو لبنانی بینکوں کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ لبنان میں بینکوں کی ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ دوبارہ کھلنے کے پہلے دو دن میں ، بینکوں کو فنڈز میں کوئی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھی گئی۔لبنان 1975-1990 کی خانہ جنگی کے بعد بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ بیرون ملک سے رقم کی لبنان منتقلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ موجودہ بحران نے لبنانی لیرہ کی ڈالر کے مقابلے میں قیمت مزید کم کردی ۔اسی حوالے سے جیفریز انٹرنیشنل بنک کی چیف ماہر معاشیات نے علیا مبیض نے متنبہ کیا کہ افراط زر کی شرح 25 فی صد سے زیادہ ہونے کے نتیجے میں لبنان میں غربت میں 20 فی صد سے اور 30 فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے عرب ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی پاؤنڈ کی قیمت کے ہر لبنانی کا پہلا سوال ہے۔ نئی حکومت کے قیام میں تاخیر سے ڈالر کے مقابلے میں لیر سخت دبائو کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں غیریقینی صورت حال ہے اور نہیں معلوم کہ نئی حکومت کون تشکیل دے گا اور نئی وجود میں آنے والی حکومت کی معاشی پالیسیاں کیاں ہوں گی۔