لاہور(آن لائن) ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا ذریعہ بننے والی وجوہات مقامی ہیں جس کے نتیجے میں سموگ پھیلتی ہے۔ لاہورمیں فضائی آلودگی کے انڈیکس میں بدترین معیار کی فضا کی حد(اے کیو آئی) 550 سے تجاوز کرنے کے باعث ماحولیاتی ماہرین اور کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔لاہور میں نصب کچھ آلات کے مطابق گلبرگ میں 600 اے کیو آئی ریکارڈ کی گئی جبکہ فضائی آلودگی کے
انڈیکس میں بدترین معیار کی فضا کی حد 300-250ہے جس میں دل اور پھیپڑوں کے امراض کا شکار افراد، بچوں، بوڑھوں کو گھر سے باہر نکل کر کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ماحولیاتی پالیسی کے ماہر عمران خالد نے کہا کہ سرد موسم (خزاں اور سرد) میں گرم ہوا، ٹھنڈی ہوا کو آگے نہیں بڑھنے نہیں دیتی جس کے نتیجے میں اسموگ واضح ہوجاتی ہے جو کہ لاہور اور یہاں تک کے اسلام آباد میں بھی نظر آتی ہے۔ اسلام آباد میں سٹینیبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے محکمے کے سربراہ عمران خالد نے کہا کہ سموگ بننے کے کچھ ذرائع میں انتہائی خراب معیار کا ایندھن استعمال کرنیوالے گاڑیوں کی آلودگی، گاڑیوں میں آلودگی پر قابو پانے سے متعلق ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، صنعتی آلودگی، میونسپل اور صنعتی فضلے کو جلایا جانا اور اینٹوں کے بھٹے جو ربڑ کے ٹائر جیسے خراب ایندھن کا استعمال شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ رواں سال میں فصلوں کی باقیات جلنے اور ہوا کی سمت کی بنیاد پر اس وقت صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور سرحد پار بھارت کی جانب سے آلودگی بھی پاکستان کو متاثر کرسکتی ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا پاکستان میں فضائی آلودگی کا ذریعہ بننے والی وجوہات مقامی ہیں۔عمران خالد نے کہا کہ فضا کے تیزی سے خراب ہوتے معیار میں بہتری کیلئے بہت سے قومی اور صوبائی
قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، درحقیقت ہمارے پاس فضائی آلودگی کی سطح کی بروقت نگرانی کیلئے ہمارے پاس نگرانی کرنے والے آلات مقدار میں موجود نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کمی کے باعث پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو(پی اے کیو آئی ) کی جانب سے آلودگی کی نگرانی کے لیے نجی مانیٹرز نصب کیلئےہیں۔عمران خالد نے کہا کہ امریکی سفارت خانے نے بھی آلودگی کی نگرانی کیلئے
اپنے مانیٹرز کو سفارتخانے اور متعللقہ قونصل خانوں میں نصب کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سموگ کمیشن تجاویز کو پورا کرنے اور کلائمٹ مارچ میں شہریوں کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کے حل کیلئے سیاسی رضامندی کی واضح کمی ہے۔سیکٹورل امیشن انوینٹری فارپنجاب کے مطابق فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ اخراج ٹرانسپورٹ سیکٹر سے ہوتا ہے اور تمام سیکٹرز میں سب سے زیادہ 45 فیصد
آلودگی ٹرانسپورٹ سے پیدا ہوتی ہے۔ساتھ ہی انڈسٹری سے 25 فیصد جبکہ زراعت سے 20 فیصد آلودگی پیدا ہوتی ہے، مجموعی طور پر فضائی آلودگی پیدا کرنے والے بڑے سیکٹرز میں پاور، انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں جو آلودگی اور اس کے اخراج میں 80 فیصد کردار ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پنجاب میں فوٹو کیمیکل
اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ اینڈ یونائیٹڈ نیشنز فوڈ ایںڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (یو این ایف اے او) کی جانب سے مرتب کی گئی آر سموگ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ موسم سرما میں مغربی سمت سے ہوا چلتی ہے لہٰذا بھارت سے فصلیں جلائے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں آنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔