اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار مظہر عباس اپنے کالم ’’اور کرپشن جیت گئی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔جیل سے رہائی پاتے وقت اس نے جیلر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’جتنی جلدی ہو سکے ایمانداری کا بھوت دماغ سے نکال دو پیسہ بھی ملے گا اور عزت و شہرت بھی ورنہ بیوی، بچے رل جائیں گے اور کسی دن تم بھی بے ایمانی میں نکال دیئے جاؤ گے‘‘۔
جیل کے باہر ایک بڑی گاڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ عام طور پر قیدی اندر اور باہر جانے کے لئے چھوٹا دروازہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ جھک کر جانا پڑتا ہے مگر اس کے لئے بڑا دروازہ کھولا گیا۔جاتے ہوئے اس نے پولیس والوں کے ہاتھوں میں پانچ، پانچ سو کے نوٹ انعام کے طور پر رکھے اور کہا ’’خرچی ملتی رہے گی، کوئی پریشانی ہو تو اس کو بتا دینا‘‘۔ اس نے ایک قیدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر جیلر سے کہا۔ ’’میں ہی ’خبر‘ ہوں، یقین نہ آئے تو باہر کھڑے کیمرہ مین اور رپورٹرز کو دیکھ لو‘‘۔ابھی جیلر یہ قصہ مجھے سنا ہی رہا تھا کہ ایک خاتون اندر داخل ہوئیں اور انتہائی نفیس لہجے میں فرمایا۔ منصور صاحب کو بلوا دیں۔ بعد میں جیلر نے بتایا کہ یہ ان کی اہلیہ ہیں۔ شوہر نے ’’پلی بارگین‘‘ کر لی ہے اور چند دن میں رہائی عمل میں آ جائے گی۔سچ بولوں مظہر صاحب میں ہار گیا ہوں اور تھوڑا بہت سمجھوتا حالات سے کر لیا ہے کیونکہ جس کمرے میں اس وقت آپ بیٹھے ہیں وہاں بڑے مجرموں سے بڑے بڑے لوگ ملنے آتے ہیں، کبھی ہمیں بیٹھنے کی اجازت ہوتی ہے اور کبھی مجھے کمرے سے باہر جانا پڑتا ہے۔فیصلہ آپ پر ہے کہ جیل میں میرا رعب چلے گا یا اس مجرم کا جس کے لئے مجھے کمرے سے باہر جانا پڑتا ہے۔ میں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، تم نے مجھے مایوس کیا، یہی تو امتحان ہوتا ہے۔