ٹوپی(آن لائن نیوز)ٹوپی میں آثار قدیمہ کے ہزاروں سال تاریخی و قدیم آثار مل گئے مضبوط قلعہ اسٹوپا،فوجی چھانی،یونیورسٹی اور کئی کلومیٹرحفاظتی دیوار کے اثار ہزاروں سال پرانی د پختون خوا کی قدیم ترین شہروں میں ایک شہر سیتاگرام جو آج ٹوپی سے مشہورہے دریائے سندھ کے کنارے اباد یہ شہرھنڈ سے پہلے ایک تجارتی بندرگاہ اورکہاٹ کی وجہ سے مشہور تھاوجہ شہرت یہاں پر2300سال قبل چمڑے اور
کپڑے کی صنعت عروج پر تھایہ ہندومت کا ایک مشہور شہرتھاجو رام والی سیتاکے نسبت ستیا گرام سے مشہورتھاسیتا ہندو مذہب کی مقدس ہستی تھی گرام سنگ سکرت زبان میں بستی کو کہتے ہے ٹوپی ستیاگرام میں سکندر ذوالقرنین 1950ء ،جنرل بنندر دور کے ایک حفاظتی قلعہ،یونیورسٹی،اسٹوپااورکئی کلومیٹر لمبی حفاظتی دیوار اب بھی موجود ہے سیتاگرام ٹوپی کی تاریخ ھنڈ،شہبازگڑھی،سوات،تخت بھائی سے بھی پرانی ہے لیکن بد قسمتی سے تاریخی اثارقدیمہ حکومت کی عدم توجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ رہے ضرورت اس امرکی ھے کہ حکومت اس کو اپنے تحویل میں لیکر اس پرکام کریں تاکہ ہمارا یہ تاریخی اٹاثہ محفوظ ہوسکے ٹوپی کے مشرقی علاقہ جہاں پر غازی بروٹھہ جھیل کے اور مغرب کی جانب نیلاب ٹاؤن شپ اور پونٹیا کے قریب ہزاروں سال پہلے یہ شہر آباد تھا اور بڑے دریا کی وجہ سے تجارتی بندرگاہ موجود تھی جہاں پر تجارتی جہاز آکر سامان آ اور لے جاتے تھے کشان دور ، بدھسٹ ترک شاہیہ، ہندوشاہیہ راجہ جے پال اور اشوکا کے اثار بھی نمایاں ہیں یہاں پر مضبوط 3قلعے بھی تھے اور سیتا گرام جو کہ سیتا سے مناسبت رکھتی ہے اور ایک روایت کے مطابق طوفان نوخ کہ وجہ سے شہر کو نقصان پہنچا تھا اور نوخ علیہ السلام کا بیٹا ہند اب جو کہ ہنڈ کے نام سے مشہورہے پر آیا تھا ور ہنڈ کو بسایا تھا لیکن سیتا گرام اس سے قبل مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا تھا محمود غزنوی دور میں جب
ہندوستان اور سومنات پر حملے کئے تو سیتا گرام شہر کو بھی فتح کرکے اپنا صدر مقام بنایا اور ان قلعوں پر حکومت کیلئے اپنے بیٹے کو حکمران بنایا بعد میں ان کا چچا اور چچازاد بھائی نے اپنے بھتیجے سے حکومت چھین لی اور شہر میں موجود قید خانہ میں بند کرنے ان کے ی آنکھیں نکال دی بعد میں چچازاد نے اپنے والد کے علم میں لائے بغیر قید کے دوران ہلاک کیا جب ان کے بھائی کو پتہ چلا تو
وہ سیتا گرام آئے اور اپنے چچازاد بھائی اور چچا کو قتل کرکے بھائی کا انتقام لیا ایسے میں شہر کو لڑائی کے دوران ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا ٹوپی شہر جو کہ کئی کلومیٹر پر محیط تھا مینئی میں رحیم پور اور مراد پور موجود تھے جو کہ اب بھی رحیما کے نام سے جانا جاتا ہے STFAنہر کھدائی کے دوران رحیما کے قریب قدیم سکے برآمد ہوئے انگریز دور تک شہر کے تمام اثار قلعے اور
آبادی سٹوپا یونیورسٹی موجود تھی اور یہ شہر تخت بھائی، شہباز گڑھی ، ہنڈ اور سوات کے تاریخ سے بھی پرانی ہیں لیکن ایک طرف مقامی اور غیر مقامی لوگوں نے کھدائی کی تو دوسری طرف ٹوپی صوابی روڈ کی تعمیر کیلئے ٹھیکدار نے یہاں سے پتھر نکال دئے جو اب خالی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے یہاں پر مشہور کنواں بھی موجود تھا اب بھی ان سے پانی چشمے کی طرح رواں دواں ہے اور بائیں کنواں کے نام سے مشہور ہے۔
آثار قدیمہ کی غفلت عدم توجہ کی وجہ سے اسی تاریخی مقام پر واپڈا نے نیلاب تاؤن کے نام سے ٹاؤن شپ قائم کرنے کیلئے پلاننگ کی ہے اور ٹاؤن شپ کی تعمیر سے رہی سہی اثار بھی مٹ جائیں گے جو عظیم تاریخ مٹی تلے دب کر بے نام ہو جائیگاضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ اثار قدیمہ عظیم ورثہ محفوظ کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں اور نسل نو کو ہزاروں سال پرانے تاریخ سے روشناس کرنے کیلئے محفوظ بنائیں۔