روسی صدر ولادی میر پوتن آسٹریلیا کے شہر برزبین میں جاری جی 20 کیسربراہی اجلاس کو اس کے اختتام سے پہلے ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔سنیچر کو انھیں مغربی ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے یوکرین کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا رہا۔جی 20 ممالک کی سربراہی کانفرنس کے دوسرے اور آخری دن اتوار کو تمام تر توجہ عالمی معیشت کی ترقی پر ہوگی جس میں عالمی معیشت میں دو فی صد ترقی کے اضافے کا عہد لیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ وہ باضابطہ اعلامیے کے جاری کیے جانے سے پہلے اس لیے روانہ ہو رہے ہیں کہ روس کا سفر طویل ہے اور وہ کچھ نیند لینا چاہتے ہیں۔انھو نے کہا: ’ہمارے بعض خیالات ہم آہنگ نہیں ہیں تاہم مذاکرات مکمل تعمیری اور بہت مفید رہے۔‘دریں اثنا امریکی صدر اوباما یوررپین رہنماؤں سے اس بات پر بات چیت کرنے والے ہیں کہ روس کی جانب سے ان کے خیال میں یوکرین کو غیر مستحکم کیے جانے کی کوشش کا متحدہ جواب کیا ہو سکتا ہے۔جی 20 کا سربراہی اجلاس عالمی معیشت میں دو فی صد کی ترقی کے حصول پر مرکوز ہے عالمی سربراہان اس موقعے پر اپنے اس عہد کا اعلان کریں گے کہ وہ سنہ 2018 تک اقتصادی ترقی میں دو فی صد کا اضافہ کریں گے۔واضح رہے کہ پہلا دن یوکرین کے معاملے پر روسی صدر ولادی میر پوتن کے خلاف غصے کے اظہار میں نکلا تھا۔صدر پوتن نے یوکرین کی کشیدگی میں روسی کی شمولیت پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے روس پر لگائی جانے والے پابندیوں کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جتنا روس کو نقصان ہوگا اتنا ہی مغربی ممالک کو نقصان ہوگا۔سنیچر کو کینیڈا کے وزیراعظم سٹیفن ہارپر، امریکی صدر براک اوباما اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے روس پر سخت تنقید کی تھی۔کینیڈا کے وزیر اعظم سٹیفن ہارپر کا کہنا تھا کہ ’میں آپ (پوتن) سے ہاتھ ملاؤں گا، لیکن میرے پاس آپ سے کہنے کے لیے ایک ہی بات ہے۔ آپ کو یوکرین سے باہر نکل جانا چاہیے‘۔اجلاس میں روس کی سخت تنقید کے بعد امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ روسی صدر پوتن قبل از وقت روانہ ہو جا ؤں گے
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا کہ یوکرین میں روس کی جارحیت ’دنیا کے لیے خطرہ ہے۔‘
ادھر برطانیہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس نے اپنے پڑوسی کو ’غیر مستحکم‘ کرنا نہیں چھوڑا تو اس پر نئی پابندیاں لگائی جائیں گی۔واضح رہے کہ روسی حکومت مشرقی یوکرین میں باغیوں کو بھاری اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کرانے کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔اطلاعات کے مطابق یوکرین پر تنقید کے نتیجے میں ایسا خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ روسی صدر سربراہی کانفرنس سے قبل از وقت چلے جائیں گے لیکن ان کے ترجمان دیمیتری پسکوف نے کہا تھا کہ ’وہ اس وقت روانہ ہوں کے جب تمام کام مکمل ہو جائے گا۔
امریکہ اور یورپی یونین نے مارچ میں یوکرین سے کرائمیا کے علاقے لے لینے کے بعد روس پر کئی قسم کی پابندیاں لگائی ہیں۔سنیچر کو اے آر ڈی ٹی وی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر پوتن نے ان پابندیوں کے ختم کیے جانے کی اپیل کی ہے۔آسٹریلیا میں جاری جی 20 کے اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان کو ہدیے میں کوالا پیش کیا گیا۔انھوں نے کہا: ’ان نام نہاد پابندیوں کے سلسلے میں جو سب سے پہلی بات ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ عالمی معیشت اور ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔۔۔ اور یہ اس چیز کے خلاف جاتی ہے جس کے لیے ہم جی20 کے سربراہی اجلاس میں یکجا ہوئے ہیں۔‘اس سال کے اوائل میں جی 20 ممالک کے وزرائے مالیات نے پانچ سالوں میں معیشت میں دو فی صد ترقی کا ہدف رکھا تھا جس کا جاری کانفرنس میں اعادہ کیا جانے والا ہے۔تاہم برزبین سے ہمارے نمائندے جیمز لینڈیل کا کہنا ہے کہ یہ ہدف ’ذرا زیادہ حوصلہ مندانہ‘ ہے کیونکہ جی کے بعض رکن ممالک اقتصادی بحران کے دور سے گذر رہے ہیں۔اس موقعے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور تقریبا چھ ہزار پولیس تعینات کی گئی ہے۔بہر حال ’برزبین ایکشن پلان‘ میں اتوار کو اس بات کا اعلان کیا جائے گا کہ اس ہدف کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے برزبین میں کالے دھن اور ٹیکس چوری کی بات کو اٹھایا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے سنیچر کو ہی کوئینزلینڈ یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب میں کہا تھا کہ ایشیا کی سکیورٹی کا انحصار بڑے ممالک کی جانب سے چھوٹے ممالک کو ہراساں کرنے پر نہیں بلکہ باہمی اتحاد اور بین الاقوامی قوانین پر ہونا چاہیے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن کو اجلاس ادھورا چھوڑ کے نکلنا پڑا مگر کیوں؟
16
نومبر 2014
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں