آج سے چند ماہ پہلے تک کہا جاتا تھا آپ اس ملک میں سب کو پکڑ سکتے ہیں لیکن آپ عدلیہ اور فوج کو نہیں پوچھ سکتے مگر 30 مئی کو پہلی بار فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کو عمر قید اور بریگیڈیئر کو سزائے موت ہوئی‘ پچھلے دو سال میں اندازاًً چار سو فوجی افسروں کا احتساب بھی ہو چکا ہے اور یہ سزا بھی پا چکے ہیں‘ اسی طرح عدلیہ کا احتساب بھی جاری ہے‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے 11 اکتوبر2018ء کو صدر مملکت سے انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی جبکہ کل تین معزز ججوں
کے خلاف ریفرنس کی کارروائی شروع ہو جائے گی چنانچہ اب کہا جا سکتا ہے ملک میں صرف سیاستدانوں کا احتساب نہیں ہوتا‘ صرف نواز شریف یا آصف علی زرداری جیلوں میں نہیں ہیں بلکہ اب ججز اور فوج بھی جواب دہ ہے‘ ملک میں اب کوئی مقدس گائے موجود نہیں مگر سوال یہ ہے اس کے باوجود احتساب کو ”اکراس دی بورڈ“ کیوں نہیں سمجھا جا رہا ہے‘ یہ متنازع کیوں ہے؟ جبکہ وزیراعظم کی طرف سے کمیشن آف انکوائری کا اعلان متنازع ہوتا چلا جا رہا ہے، یہ تنازع کہاں تک چلے گا‘ کیا نیب واقعی حکومت کو کوئی رعایت دے رہا ہے۔