اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو پھل کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے اور دوسری جانب پھلوں کو صحت کا خزانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو پھل کھانے چاہئیں یا نہیں؟اس کا جواب بہت سادہ سا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو پھل کھانے چاہئیں تاہم ان کے انتخاب میں تھوڑی عقل مندی سے کام لینا چاہئے۔ ہر پھل میں چینی کی مقدار موجود ہوتی ہے۔
عام طور پر پھل کی ایک پلیٹ میں 15 گرام چینی ہوتی ہے تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک پھل کی کتنی مقدار ایک بار میں لی جاتی ہے یا پلیٹ کا سائز کتنا بڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ درمیانے سائز کاآدھا کیلا کھاتے ہیں تو اس طرح آپ پندرہ گرام کاربوہائیڈریٹس لے لیتے ہیں۔ آدھا کپ آم اور تین چوتھائی کپ انناس میں بھی اسی قدر مقدار میں کابز ہوتے ہیں۔ پھلوں میں موجود فریکٹوز چینی کی وہ قسم ہوتی ہے جو کہ صحت کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے اور اگر یہ پروسیسڈ فوڈز میں شامل کرنے کیلئے پھلوں سے علیحدہ کیا جائے۔ تب ان کے نقصانات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ کولیسٹرول میں اضافہ، وزن میں زیادتی، انسولین کے مسائل سمیت ان گنت مسائل اسی فریکٹوز کی بدولت ہوتے ہیں۔ دور جدید میں پیدا ہونے والے پھلوں کو ”ہائیبرڈائیزیشن“ کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس سے ان میں فریکٹوز کی مقدار کہیں زیادہ بڑھ چکی ہوتی ہے۔ یعنی کہ ہم اپنے آبا کے زیر استعمال رہنے والے پھلوں میں موجود فریکٹوز کی نسبت پچاس گنا زیادہ میٹھے پھل کھاتے ہیں۔علاوہ ازیں پھل کھانے کا طریقہ کار بھی اسے نقصان دہ یا فائدہ مند بناتا ہے۔ برٹش میڈیکل جرنل کی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ پھلوں کی معمولی مقدار لینے والوں میں ذیابیطس کے امکانات 23فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر پھلوں کے رس کے بجائے اسے ثابت کھانے پر توجہ دی جائے تو بھی پھل کے ہاضمے کو بہتر اور اسے کم نقصان دہ بنایا جاسکتا ہے۔