پندرہ مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک آسٹریلین دہشت گرد نے دو مساجد پر فائرنگ کی‘ 50مسلمان شہید اور 50زخمی ہو گئے‘ اس واقعے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت اور معاشرے کے ردعمل نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ پورے میڈیا پر سرکاری سطح پر اذان سنائی گئی‘ نماز کے دوران شہری قطاریں بنا کر مسلمانوں کے پیچھے کھڑے ہوئے‘ وزیراعظم سکارف لے کر مسلمان عورتوں سے ملتی رہیں‘
پارلیمنٹ میں تلاوت کرائی گئی‘ عام خواتین نے بھی اظہار یکجہتی کیلئے سروں پر سکارف لئے اور وزیراعظم نے اعلان کیا ہم کبھی دہشت گرد کا نام نہیں لیں گے‘ یہ کرسچین گورنمنٹ‘ کرسچین سوسائٹی اور کرسچین ملک کا ایک ایسا رویہ تھا جس نے پوری مسلم دنیا کے دل موہ لئے‘ عیسائی اور مسلمان قریب قریب آ گئے‘ یہ ایک واقعہ ہے‘ آپ اب دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ جمعہ 12 اپریل کو کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں خوکش دھماکہ ہوا اور اس میں ہزارہ کمیونٹی کے 21 لوگ جان سے گزر گئے جبکہ اٹھاون زخمی ہو گئے‘ یہ ہزارہ کمیونٹی پر اس نوعیت کا 25واں حملہ تھا‘ ان حملوں میں اب تک 13سو لوگ زندگی دے چکے ہیں اور پندرہ سو زخمی ہیں لیکن آپ حکومت کا رویہ دیکھئے‘ آج تین دن بعد صرف داخلہ کے سٹیٹ منسٹر کوئٹہ گئے‘ ہمارے صدر‘ وزیراعظم سمیت کسی بڑے وزیر کو کوئٹہ جانے کی توفیق نہیں ہوئی‘ہزارہ کمیونٹی کا خیال ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت ہمیں جانتی ہی نہیں یا پھر یہ ہمیں پاکستان کے شہری ہی نہیں سمجھتی‘ آپ نیوزی لینڈ کی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ دیکھیں اور پھر مسلمان حکومت کااپنے عوام کے ساتھ سلوک دیکھیں اور پھر سوچیں جس ملک میں 21 لوگوں کی جان کی کوئی قدر‘ کوئی عزت نہ ہو وہ ملک خود کو کتنی دیر تک ملک کہلا سکے گا‘ وزیراعظم اور صدر دونوں کو کوئٹہ بھی جانا چاہیے اور ہزارہ کمیونٹی کے تحفظ کا بندوبست بھی کرنا چاہیے‘ حکومت اپوزیشن کو ڈرا رہی ہے یا پھر خود ڈر رہی ہے‘ پنجاب حکومت نے حمزہ شہباز کو گرفتار نہ کرنے پر آئی جی پنجاب تبدیل کر دیا‘ یہ آٹھ ماہ میں تیسرے آئی جی کی تبدیلی ہے ‘ کیا بیوروکریسی گورنمنٹ کے قابو نہیں آ رہی اور آئی ایم ایف کا پیکج تقریباً فائنل ہو گیا‘ کیا اس پیکج سے معاشی پہیہ چل پڑے گا۔