لاہور(نیوزڈیسک )ایک پرانی عمارت کے ایک بوسیدہ سے کمرے میں بنا ہوا جِم جہاں آنے والے نوجوان بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں، کوئی بروس لی بننا چاہتا ہے تو کوئی خود کو جیکی چین تصور کرتا ہے۔یہ پاکستان کا پہلا ’فائٹ کلب‘ ہے جہاں مِکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) کی تربیت دی جاتی ہے اور اچھے شاگردوں کو تیاری کے بعد بین الاقوامی ’کیج فائٹنگ‘ کے مقابلوں کے لیے بھیجا جاتا ہے۔کیج فائٹنگ باکسنگ کشتی اور مارشل آرٹس کا امتزاج ہے جس میں کھلاڑی کو کسی قسم کے حفاظتی ساز و سامان کے بغیر باکسنگ رِنگ میں لڑنا پڑتا ہے۔ اکثر ایم ایم اے کھلاڑی دانت اور ہڈیاں تڑوانے کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن وہ عام باکسروں سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔کبھی یہ کھیل غیر قانونی ہوا کرتا تھا اور اس طرح کے تمام مقابلے خفیہ طور پر کرائے جاتے تھے، لیکن اب یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ کھیل بن گیا ہے اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں بہت مقبول ہے۔تاہم لاہور کا فائٹ کلب کچھ انوکھی نوعیت کا ہے۔ رِنگ میں مدِ مقابل سے لڑنے سے زیادہ یہاں مستحق نوجوانوں کو مشکل حالات سے لڑنا سکھایا جا رہا ہے۔بارہ سالہ ابوبکر کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں لیکن ابوبکر غربت کے شکار بیشتر نوجوانوں کی طرح سڑکوں کی نذر نہیں ہوئے بلکہ وہ تمام دن فائٹ کلب میں گزارتے ہیں۔وہ تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف مارشل آرٹس کے ماہرین ان کو رِنگ میں مشقیں کروا رہے ہوتے ہیں، وہیں بعض کلب ممبران ابوبکر کے ہوم ورک میں ان کی مدد کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔پاک ایم ایم اے فائٹ کلب کے منتظمین سکالر شپ کے ذریعے مستحق نوجوانوں کو بھرتی کر رہے ہیں اور ان ک مفت تربیت فراہم کرتے ہیں، تاکہ وہ غربت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی مسائل سے محفوظ رہ سکیں۔اویس کا کہنا ہے کہ وہ جب یہاں آئے تھے تو ان کے پاس باکسنگ کے دستانے خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے ۔فائٹ کلب کے شریک بانی محمود رحمان کا کہنا ہے کہ جب دشوار حالات سے دوچار نوجوانوں کے پاس فارغ وقت ہو اور پاس مثبت کاموں میں مشغول رہنے کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہوں تو وہ اکثر منفی کاموں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’ہم نہ صرف ان کو اس سے بچاتے ہیں بلکہ ایک اچھا فائٹر ہونے کے لیے انھیں سگریٹ نوشی اور منشیات جیسی عادات سے دور رہنا پڑتا ہے۔ اچھا فائٹر بننے کے لیے پہلے انھیں اچھا انسان بنایا جاتا ہے۔‘سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں تقریباً دو لاکھ نوجوان اور بچے سڑکوں پر اپنا مستقبل ضائع کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بھکاری مافیا، منشیات اور جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔حکومت کے طرف سے اس طرح کے بچوں کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی سماجی بہبود کی حکمت عملی کی شدید کمی ہے۔ بگڑتی معاشی صورت حال اور بڑھتی بےروزگاری کی وجہ سے نوجوان نسل کی مایوسی اور غصے کو مثبت انداز میں نکالنے کا ذریعہ شاید’کیج فائٹنگ‘ کے بڑھتے رجحان کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔حکومت کی طرف سے اس طرح کے بچوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کی سماجی بہبود کی حکمت عملی کی شدید کمی ہےاویس راجہ ان نوجوانوں میں سے ہیں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں