اسلام آباد(نیو ز ڈیسک )سلوواکیہ کی شہری کلارا بالوگووا کو علم تھا کہ وہ جس سے شادی کرنے جا رہی ہے وہ اس سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اس کے ہونے والے بچے میں کوئی دلچسپی ہے، لیکن پھر بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئی۔اٹھارہ سالہ کلارا بالوگووا بتاتی ہے کہ شادی کے لیے جب اس نے سلوواکیہ سے انگلینڈ کا ہزاروں کلومیٹر طویل سفر کیا تو اس کا حمل آخری ہفتوں میں تھا اور وہ بہت مفلسی کی حالت میں تھی۔کلارا کو علم تھا کہ اس کا تیئس سالہ پاکستانی شوہر اس سے صرف اس لیے شادی کر رہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی ایک رکن ریاست کی شہری ہے۔ یہ شادی اس لیے طے کی گئی تھی تاکہ اِس پاکستانی نوجوان کو یورپ میں رہائش کا اجازت نامہ مل جائے۔شادی کے بدلے میں بالوگووا کو برطانیہ میں مناسب رہائش اور شاید کچھ رقم دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ برطانیہ پہنچنے کے کچھ دنوں کے بعد ہی اسے مانچسٹر سے گلاسگو کے ایک فلیٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہے، ”وہ مجھے گھر سے نکلنے نہیں دیتا تھا، وہ کہتا تھا کہ یہاں باہر جانا ممکن نہیں۔“ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دینے کے دوران اس نے بتایا،
”ہم ہر ہفتے صرف ایک مرتبہ مل کر باہر جاتے تھے“۔بالوگووا کی یہ کہانی مشرقی یورپ کے غریب ممالک سے تعلق رکھنے والی ان درجنوں لڑکیوں کی آب بیتیوں میں سے ایک ہے، جنہیں شادیوں اور گھمانے پھرانے کا بہانہ دے کر مغربی یورپ لایا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق ایسی شادیاں کرنے والے زیادہ تر مردوں کا تعلق ایشیا یا افریقہ سے ہوتا ہے
اور وہ ان لڑکیوں کو شادی کے بدلے بھاری رقوم بھی ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ گروپس بھی کام کر رہے ہیں اور ایسی شادیوں کا انتظام کرانے پر انہیں بھی مالی فائدہ ہوتا ہے۔