کراچی(اے این این ) بینکنگ کورٹ نے میگا منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت 19ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے مقدمے کو اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دے دیا جبکہ نمر مجید سمیت 3ملزمان احاطہ عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔کراچی کی بینکنگ کورٹ نے میگا منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعہ کے روز سنایا گیا۔مقدمے کی شنوائی کے
موقع پر انور مجید کا بیٹا ملزم نمر مجید، ذوالقرنین اور علی کمال مجید عدالت میں پیش ہوئے تاہم کیس کے ملزمان پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور و دیگر ملزمان ابتدائی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے، حسین لوائی، عبدالغنی مجید و دیگر نے دونوں کی حاضری لگائی۔عدالت نے گزشتہ سماعت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے میگا منی لانڈرنگ کے کیس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت دیگر19ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے تمام ملزمان کی زر ضمانت بھی خارج کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے یہ فیصلہ 11مارچ کو محفوظ کیا تھا۔عدالت نے کیس اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق نیب کی درخواست منظور کر لی ۔عدالتی فیصلے کے بعد تین ملزمان نمر مجید، ذوالقرنین اور علی کمال مجید فیصلہ سنتے ہیں احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے ۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ بینکنگ عدالت کی جانب سے مقدمہ منتقلی کی درخواست کے فیصلے کے خلاف ملزمان کے وکلا نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملزمان کی عبوری ضمانتیں وہیں سے حاصل کی جائیں گی۔عدالتی فیصلے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری بینکنگ کورٹ پہنچے اور حاضری لگائی جبکہ احاطہ عدالت میں وکلا سے مشاورت بھی کی، تاہم اس دوران فریال تالپور پیش نہیں ہوئیں اور ان کے وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتیں۔عدالت آمد کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کے اس معاملے پر تبصرے سے گریز کیا اور صحافیوں کے سوال پر کہا کہ کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی سے کیا فرق پڑے گا اور اس کا مقصد کیا ہے،
اس بارے میں ججز اور ماہر وکلا ہی اپنی رائے دے سکتے ہیں۔صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ کا کیس اسلام آباد منتقل ہوگیا کیا کہیں گے، جس پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ کیس ٹرانسفر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ججز اور ماہرین وکلا ہی اس بارے میں اپنی رائے دے سکتے ہیں۔سابق صدر کی آمد پر عدالتی احاطے میں سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے، پی پی کارکنان اور رہنما سعیدغنی، سینٹر قیوم سومرو، راشد ربانی بھی عدالت پہنچے۔۔
علاوہ ازیں آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ احتساب عدالت کو اختیار ہے کہ وہ ملزمان کے وارنٹ جاری کرے یا انہیں طلب کرے۔انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس تفتیش کا اختیار موجود نہیں بلکہ گرفتاری کا اختیار ہے، اس صورتحال کے پیش نظر حکمت عملی طے کی جارہی ہے۔خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکانٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے
شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکانٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکانٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان
کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکانٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے
بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت
عظمی کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔دوسری جانب آصف
زرداری کیس کے سلسلے میں بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے اور اپنی آخری حاضری لگائی۔اس موقع پر صحافی نے سابق صدر سے سوال کیا کہ آپ کا کیس اسلام آباد منتقل ہوگیا ہے اس پر کیا کہیں گے؟ اس پر آصف زرداری نے جواب دیا کہ کیس ٹرانسفر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہیکہ آصف زرداری اور فریال تالپور نے بینکنگ کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فیصلے کے خلاف ایک دو روز میں
ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ایف آئی اے نے گزشتہ سال 6 جولائی کو بینکنگ کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جس کی تقریبا 8 ماہ تک سماعت ہوئی، آصف زرداری اور فریال تالپور نے مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی۔