اسلام آباد (این این آئی)پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سول ایوی ایشن ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی میں اربوں روپے کی بے قاعدگیاں کا انکشاف ہوا ہے ، پی آئی اے کے ایک جہاز پر 507 اہلکار تعینات ، امارات جیسی ائیر لائنز پر یہ تعداد ایک سو بیس نکلی چیئر مین کمیٹی شہبازشریف نے معاملے پر چار ذیلی کمیٹی کی تشکیل دینے کے ساتھ سیکرٹری قانون ، ڈی جی ایف آئی اے اورایم ڈی پیپرا کوبھی طلب کرلیا جبکہ نیواسلام آباد ائیرپورٹ کا نام بینظیربھٹوانٹرنیشنل ائیرپورٹ رکھا پراتفاق کیا ہے ۔
جمعرات کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس اپوزیشن لیڈر اور کمیٹی کے چیئر مین میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر شہباز شریف نے کہا کہ موسم بہت رومینٹک ہے باہر بارش ہورہی ہے لیکن ہم نے اجلاس کرنا ہے اس موقع پر پی اے سی میں شرکاء مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ اجلاس کے دور ان کمیٹی کے رکن فخر امام نے کہاکہ نیو اسلام اباد ائیرپورٹ اور ریلوے کے حوالے سے خصوصی کمیٹیا ں بنائی جا رہی ہیں ۔رانا تنویر حسین نے کہاکہ اے ایس ایف سال دو ہزار گیارہ بارہ کی گرانٹس کا جائزہ لیا اور ضمنی گرانٹس پر پابندی ہونی چاہیے۔ رانا تنویر حسین نے کہاکہ پہلے اخراجات کیے جاتے ہیں پھر منظوری لی جاتی ہے ۔فخر امام نے کہا کہ یہ اختیارات پارلیمنٹ سے سول بیوروکریسی کو دیئے گئے۔ فخرامام نے کہاکہ دیکھنا ہوگا کہ منی بل اور گرانٹس کے حوالے سے پارلیمنٹ کے کیا اختیارات ہیں ؟۔ اجلاس کے دور ان شاہدہ اختر علی اور شیریں رحمن نے کہاکہ ضرورت کے مطابق فنڈز لینے چاہئیں ۔اجلاس کے دور ان آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2011 میں ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 21 کروڑ کی گرانٹ منظور کی گئی،اس سپلیمنٹری گرانٹ کی آج تک پارلیمنٹ سے منظوری نہیں لی گئی۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ قانون کے مطابق وزارت خزانہ کو اسی سال پارلیمنٹ سے منظوری لینا تھی۔
حکام نے بتایا کہ چھ سال گزر گئے اب جانچ پڑتال بھی مشکل ہے۔آڈٹ حکام کے مطابق صرف وزارت خزانہ نہیں دیگر سرکاری اداروں کا بھی یہی حال ہے۔ کمیٹی کے چیئر مین شہبازشریف نے کہا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔آڈٹ حکام نے کہا کہ طریقہ یہ ہے کہ جو ضمنی گرانٹس جاری کی جائیں اسی سال اس کی منظوری لی جائے ۔آڈٹ حکام کے مطابق دو سو دس ملین کے فنڈز جاری کیے گئے اور آج تک پارلیمنٹ سے منظوری نہیں لی گئی۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ ضمنی گرانٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں ۔فخر امام نے کہاکہ وفاقی بجٹ میں ابھی وقت ہے اس معاملہ کو بجٹ سے پہلے بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔سردار نصر اللہ دریشک نے کہاکہ وزارت خزانہ کو ضمنی گرانٹس کے حوالے سے ڈیڈ لاین دیں تاکہ وہ اپنی تجاویز مرتب کر سکیں ۔ لیگی رہنما رانا تنویر حسین نے کہاکہ کچھ پرنسپل اکاؤنٹس افیسر معاملے کو سنجیدی نہیں لیتے ۔
شہباز شریف نے کہاکہ ضمنی گرانٹس کے حوالے سے وزارت خزانہ کو دو ہفتے کا وقت دیتے ہیں ۔اس موقع پر سردار نصر اللہ دریشک نے شکوہ کیا کہ ہمیں جنوبی پنجاب کیلئے فنڈز تاخیر سے ملتے تھے ،لوگ ہمیں کہتے تھے کہ آپ کیسے ایم پی اے ہیں،تاخیری حربے بیوروکریسی استعمال کرتی تھی تاہم نام ہمار اآتا تھا ،کسی بھی مالی سال کے شروع میں ریلیز دس سے پندرہ فیصد ہوتا ہے،فنڈز کی واپسی پر عوام کہتے تھے کہ یہ دکھاوے کیلئے فنڈز تھے.
فنڈز کی ریلیز اور اخراجات کے عمل کیلئے موثر قانون سازی کی جائے۔شہبازشریف نے کہاکہ فیصلہ ہوا تھا کہ پچاس ملین سے کم کا اڈٹ پیراز زیر بحث نہیں آ گا، پچاس ملین یا اس سے زیادہ کے اڈٹ پیراز مرکزی کمیٹی میں زیر بحث آئیں گے۔ شہباز شریف نے کہاکہ سب کمیٹی پچاس ملین سے کم آڈٹ پیرازکو دیکھے گی۔اجلاس کے دور ان سول ایوی ایشن اور سندھ حکومت کے درمیان زمین کے معاملہ پر چیئر مین کمیٹی نے شاہدہ اختر علی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔
چیئر مین نے کہاکہ کمیٹی دو ہفتوں میں زمین کے حوالے سے رپورٹ پیش کرے ۔اجلاس کے دور ان آڈٹ حکام نے بتایاکہ کراچی میں سول ایوی ایشن کی زمین نجی پارٹی کو دینے سے 5 ارب 48 کروڑ کا نقصان ہوا ۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ 5 ایکٹر زمین 1992 میں نجی پارٹی کو لیز پر دی گئی۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ نیو اسلام ائیرپورٹ کا نام نیو بے نظیر ائیر پورٹ کیوں نہیں رکھا گیا؟بے نظیر بھٹو کا نام کس طرح ہٹایا گیا ۔
اس موقع پر شہباز شریف نے کہاکہ یہ تو پھر آڈٹ حکام کی ناکامی ہے جس پر کمیٹی میں زور دار قہقہے لگائے گئے ۔ اجلاس کے دور ان پی ٹی آئی کے سردار نصراللہ دریشک نے ائیرپورٹ کو بے نظیر کے نام سے منصوب کرنے کی تجویز دے دی ۔ اجلاس کے دور ان پی اے سی نے نیواسلام آباد ائیرپورٹ کا نام بینظیربھٹوانٹرنیشنل ائیرپورٹ رکھنے پر اتفاق کیا ہے ۔ اجلاس کے دور ان سال دو ہزار بارہ تیرہ میں بیس ارب روپے سے زائد کی ادائیگیوں کے معاملہ پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ سول ایوی ایشن میں مستقل طور پر آڈیٹر جنرل کا نمائندہ نہیں ہوتا۔
آڈٹ حکام نے کہاکہ آڈٹ رپورٹ بروقت پارلیمنٹ میں پیش ہوئی تھی لیکن پی اے سی میں زیر بحث نہیں آئی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بے ضابطگیوں پر کئی سال گزار جاتے ہیں ذمہ دار فوت ہو جاتے ہیں اور ہوتا کچھ نہیں،سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ کوئی میکزم ہونا چاہیے میگا بے ضابطگیوں کے حوالے سے بروقت اقدامات ہوں۔ اجلاس کے دور ان نیو بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے سول ورکس کے ٹھیکے میں تبدیلی کا ایشو بھی زیر غور آیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ معاہدہ سول ایوی ایشن اور میسرز لگان حسنین فرم کے جوائنٹ وینچر کے درمیان ہوا۔
آڈٹ حکام نے اعتراض کیا کہ کام کے دوران تعمیراتی فرم نے کنٹریکٹ میں نیا پارٹنر شامل کر لیا۔چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ نئے کنٹریکٹر کی شمولیت پیپرا رولز کے خلاف ہے۔ کمیٹی نے اجلاس میں موجود ایف آئی اے ڈائریکٹر کے حوالے سے اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے اپنی رپورٹ میں جوائنٹ وینچر کو قانونی قرار دے چکی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے خود کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر معاملے کی وضاحت کریں ۔کمیٹی نے پیپرا کے چیئرمین اور سیکریٹری قانون بھی (آج) جمعہ کو طلب کرلیا ۔
اجلاس کے دور ان نور عالم خان نے کہاکہ جوبھی سرکاری ملازم غلط کام کا دفاع کرے وہ کمیٹی میں نہ آئے ۔نور عالم خان نے کہاکہ ڈیڑھ گھنٹے سے ایک آڈٹ پیرے پر بحث ہو رہی ہے ۔نور عالم خان نے کہاکہ پانچ سال سے ایف آئی اے کو انکوائری بھیجی گئی تھی اب تک کیا بنا ؟۔شہباز شریف نے کہا کہ اس معاملے پر ڈی جی ایف آئی کو آنا چاہیے ۔ نور عالم خان نے کہا کہ تیاری کرکے حکام آتے نہیں کیوں وقت ضائع کیا جا رہا ہے ؟ ۔
کمیٹی کے چیئر مین شہباز شریف نے کہا کہ سات ارب کے حوالے سے دستاویزات میں ایف آئی اے انکوائری کا ذکر نہیں ۔کمیٹی نے ایف آئی اے حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ سات ارب روپے سے زائد کی ادائیگیوں کے معاملہ پر شہباز شریف نے کہاکہ ایف آئی اے کو اس حوالے سے خط لکھا گیا تھا کیا بنا ؟۔ ایف آئی حکام نے کہاکہ ہمارے علم میں نہیں ۔اجلاس کے دور ان ایف آئی اے حکام کی لاعلمی پر کمیٹی اراکین نے حیرت کا اظہار کیا ۔
پی اے سی سیکرٹری کو ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھنے کی ہدایت کی گئی ۔اجلاس کے دور ان تاخیر سے بولنے کا موقع دینے پر تحریک انصاف کے نور عالم خان نے شہباز شریف سے شکوہ کیا کہ (ن )لیگ کے ارکان کو ہی بولنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ ہاکی کی طرح رشید جونیئر صلاح الدین سے سینئر کو پاس والا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیوروکریسی کی جانب سے لگان حسنین جوائنٹ وینچر پر غلط معلومات دینے پر کاروائی ہونی چاہیے۔
نور عالم خان نے کہاکہ سیکرٹری ایوی ایشن کیساتھ بیٹھا بندہ غلط بات کر رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔ نور عالم خان نے کہاکہ جو بندہ غلط کام کا دفاع کرے اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے۔اجلاس کے دور ان ڈائریکٹر ایف آئی اے متعلقہ انکوائری سے لا علم نکلے جس پر کمیٹی نے معاملے پر ڈی جی ایف آئی اے اور ایم ڈی پیپرا کو طلب کر لیا۔اے ایس ایف کی تجاوزات کے معاملہ پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ اے ایس ایف کی تجاوزات کی وجہ سے بارہ ارب کی ریکوری ہو نی ہے ۔
کمیٹی سول ایو ی ایشن حکام کو ہدایت کی گئی کہ سول ایوی ایشن اور اے ایس ایف معاملے پر دو ہفتوں میں پیشرفت کرے اور ایک ماہ میں ریکوری کرے ۔اجلاس کے دور ان حکام نے بتایا کہ پی آئی اے کے پاس 32 جہازہیں،32 میں سے 25 جہاز سفری سہولیات کے لئے میسر ہوتے ہیں۔بتایاگیا کہ پی آئی اے کے ایک جہاز پر 507 اہلکار تعینات ہیں،امارات اور دوسری اچھی ائیر لائنز پر یہ تعداد 120 ہے۔ چیئر مین پی اے سی شہباز شریف نے کہاکہ پی آئی اے کی بہتری کے لئے کیا اصلاحات کی جا رہی ہیں۔
پی اے سی کو اصلاحات سے متعلق الگ سے بریفنگ دی جائے ۔ شہباز شریف نے ہدایت کی کہ آئندہ ہفتے جامع پروگرام کے ساتھ اجلاس میں آئیں۔اجلاس کے دور ان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی آئی اے کی بہتری کے لئے کی جانے والی اصلاحات سے متعلق خصوصی بریفنگ آئندہ جمعرات کو طلب کر لی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی آئی اے پر قرضہ 104 ارب روپے ہیں جبکہ ادارے کے اثاثے 16 ارب کے ہیں۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی آئی اے نے بغیر بولی دئیے کھانے پینے کا ٹھیکہ ایک ہی فرم کو دوبارہ دے دیا۔
آڈٹ حکام نے کہاکہ اس اقدام سے 34 کروڑ کا نقصان پوا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ بغیر بولی کے ٹھیکہ دینا تو بڑا جرم ہے۔اجلاس کے دور ان چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی آئی اے کے آڈٹ پیرا کے بارے میں ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی۔ شہباز شریف نے کہاکہ ذیلی کمیٹی کے سربراہ سردار نصر اللہ دریشک ہونگے۔اجلا س کے دوران پی آئی اے کے واجبات کی وصولی کے حوالے سے ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ذیلی کمیٹی کی سربراہی حنا ربانی کھر کرینگے ۔چیئرمین پی اے سی نے کہاکہ ذیلی کمیٹی دس روز میں اپنی رپورٹ مرکزی کمیٹی کو پیش کریگی۔اجلاس کے دوران اسلام آباد ائیر پورٹ پرمالی بے قاعدگیوں کا معاملہ فخرامام کی سربراہی میں قائم زیلی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ۔