معروف کالم نگار اور اینکر پرسن حامد میر اپنے آج کے کالم ’’ظلم کو چار چاند لگانے والے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔آج اپنے دل کا کیا حال سنائوں؟ یہ دل بہت زخمی ہے۔ ان زخموں کے پیچھے ایک بے بسی کا احساس ہے۔ بے بسی کا یہ احساس نشتر بن کر بار بار دلِ ناتواں پر زخم لگا رہا ہے۔ آج صرف میرا نہیں، اکثر اہلِ وطن کا دل زخمی ہے۔ جس جس نے سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے تین بچوں کے چہروں پر دکھ اور بے بسی کو محسوس کیا ہے۔
اسے ان بچوں کی بے بسی میں اپنی بے بسی نظر آئی ہو گی۔ جب بھی کسی بے گناہ کو گولیاں مار کر دہشت گرد یا لٹیرا قرار دیا جاتا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام واقعات گھومنے لگتے ہیں جن میں پہلے کسی بے گناہ پر ظلم کیا گیا، پھر اس ظلم کو چار چاند لگا کر ایک کارنامہ بنا دیا گیا۔ ساہیوال میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ 19جنوری کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب کائونٹر ٹیررازم (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے لاہور سے آنے والی ایک کار کے ٹائروں پر فائرنگ کی۔ جب یہ کار سڑک کنارے رک گئی تو اس پر تین اطراف سے فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے باعث کار میں موجود عورتوں اور بچوں نے چیخ و پکار شروع کی تو رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس سی ٹی ڈی اہلکار کار کے قریب آئے۔ کار میں موجود زخمی خلیل نے کہا کہ ہماری تلاشی لے لو، ہم غیر مسلح ہیں، ہم شادی میں جا رہے ہیں، تم نے جو لینا ہے لے لو، ہمیں چھوڑ دو۔ پھر اس نے کہا کہ ہماری گاڑی میں بچے ہیں، ہمارے بچوں کو مت مارو۔ ایک سی ٹی ڈی اہلکار نے خلیل سے کہا کہ بچوں کو کار سے باہر نکالو۔ اس دوران خلیل اپنے ہوش کھو چکا تھا۔ پچھلی سیٹ پر موجود اس کی بیوی نبیلہ اور 13سال کی بیٹی اریبہ خاموش ہو چکی تھیں۔ دو سی ٹی ڈی والوں نے پچھلے دروازے کھول کر دس سالہ عمیر، سات سالہ منیبہ اور چار سالہ ہادیہ کو نکالا اور پھر بڑی سفاکی کے ساتھ کار میں موجود دو زخمی عورتوں اور دو زخمی مردوں پر مزید گولیاں برسائیں تاکہ ان میں سے کوئی زندہ نہ بچ جائے۔
سی ٹی ڈی والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ وائرلیس کے علاوہ اپنے موبائل فونوں پر اپنے افسروں کو بتا رہے تھے کہ زندہ بچنے والے بچے مارے جانے والوں کو اپنے ماں باپ قرار دے رہے ہیں لیکن افسران نے اصرار کیا کہ اس غلطی کو کارنامہ بنا دو۔ سی ٹی ڈی والوں نے اپنے ظلم کو چار چاند لگانے کیلئے ایک کہانی گھڑی اور دعویٰ کیا کہ مارے جانے والے مرد اور عورتیں دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے تھا۔سی ٹی ڈی والے زخمی بچوں کو ایک اسپتال میں لے گئے۔
یہاں پہنچنے والے صحافیوں نے دس سالہ عمیر سے بات کی تو پتا چلا کہ سی ٹی ڈی والے جھوٹ بول رہے ہیں۔ جب میڈیا پر اس جھوٹ کا پردہ چاک ہوا تو سی ٹی ڈی والوں نے ایک نیا موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کار کا ڈرائیور ذیشان دہشت گرد تنظیم کا کمانڈر تھا اور کار میں سوار دیگر افراد کو نہیں پتا تھا کہ اس کا تعلق دہشت گردوں سے ہے۔ کار کے کالے شیشوں کے باعث کار کے اندر موجود عورتیں اور بچے نظر نہیں آئے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے سی ٹی ڈی جھوٹ پر جھوٹ بولتی گئی۔
پتا چلا کہ ذیشان دراصل خلیل کا محلے دار تھا اور کرائے پر گاڑی چلاتا تھا۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ تھا کہ اس کار میں سے ان پر فائرنگ ہوئی اور جوابی فائرنگ میں دہشت گرد مارے گئے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ کار سواروں نے کوئی فائرنگ نہیں کی، فائرنگ اگر کی تو سی ٹی ڈی والوں نے کی۔افسوسناک پہلو یہ تھا کہ جب میڈیا میں سی ٹی ڈی کا جھوٹ بے نقاب ہو چکا تو پنجاب پولیس نے ایک ہینڈ آئوٹ میں کہا کہ ساہیوال کے قریب چار دہشت گرد مار دیئے گئے۔
اگر یہ دہشت گرد واقعی اتنے خطرناک تھے تو سی ٹی ڈی والے شلواریں قمصیں اور رنگ برنگے ٹرائوزر پہن کر انہیں گرفتار کرنے کیوں آئے؟ کسی نے بھی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ مجھے جب دس سالہ عمیر کا موبائل فون پر ریکارڈ کیا گیا ویڈیو بیان سننے کا موقع ملا تو میں نے پنچاب حکومت کے مختلف ذمہ داروں سے رابطہ کیا۔ سب کو معلوم تھا کہ سی ٹی ڈی والوں نے ظلم کیا ہے کیونکہ ساہیوال کی ضلعی انتظامیہ نے بھی سی ٹی ڈی کی کہانی کو جھوٹ قرار دیدیا تھا۔
سی ٹی ڈی والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے پنجاب حکومت نے ایک جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔یہ وہ موقع تھا جب پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ سی ٹی ڈی کے جھوٹ کا دفاع ممکن نہیں رہا، اب آپ سی ٹی ڈی والوں کی گرفتاری کا اعلان کر دیجئے۔ سردار عثمان بزدار میانوالی کے دورے پر تھے۔ ان کی گاڑیوں کے لمبے قافلے میں سیکورٹی جیمرز کے باعث موبائل فون غیر موثر تھے۔
عثمان بزدار کو صورتحال کی سنگینی کا احساس اس وقت ہوا جب وزیراعظم عمران خان نے ان سے رابطہ کرکے سانحہ ساہیوال پر بات کی۔ وزیراعلیٰ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دینے پر شش و پنج میں پڑے ہوئے تھے لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ اس واقعے کی سنگینی کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں اور یوٹرن لے سکتے ہیں تو وزیراعلیٰ نے سی ٹی ڈی والوں کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔ اس واقعے کی اگلی صبح وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کیا اور کہا کہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف بہت اہم کردار ادا کیا ہے لیکن قانون سب کیلئے برابر ہے۔
وہ یہ بتانا بھول گئے کہ 23جون 2010ء کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سی آئی ڈی کو سی ٹی ڈی میں تبدیل کیا تھا۔ سی ٹی ڈی نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے کیونکہ انہیں دہشت گردوں سے لڑنے کیلئے تنخواہ دی جا رہی تھی۔ وہ قوم پر احسان نہیں کر رہے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سی ٹی ڈی نے بہت سے بے گناہوں کو بغیر کسی ثبوت کے غائب کر دیا، کسی کو جعلی مقابلے میں مار دیا، کسی کو دوسرے اداروں کے حوالے کر کے لاپتا افراد میں شامل کر دیا۔ 13
جنوری 2018ء کو کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ہمراہ مارے جانے والے محمد اسحاق کا تعلق احمدپور شرقیہ سے تھا اور اسے بھی سی ٹی ڈی پنجاب نے پورے علاقے کے سامنے اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ نجانے وہ کراچی کیسے پہنچا اور رائو انوار کے ہاتھ کیسے آیا؟ رائو انوار کو سزا مل جاتی تو شاید سی ٹی ڈی والے ساہیوال میں ایک بے گناہ خاندان پر ظلم کرکے اسے اپنا کارنامہ قرار نہ دیتے۔وزیراعلیٰ پنچاب عثمان بزدار کہتے ہیں کہ وہ سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ جب قاتل پولیس والوں کی انکوائری ایک پولیس افسر کرے گا تو کون سی عبرت اور کیسا نشان؟ سب سے پہلے تو آپ ظلم کو چار چاند لگا کر کارنامہ بنانے والی پولیس کے سربراہ آئی جی پنجاب کو فارغ کریں، پھر دیکھیں گے کہ آپ کسے عبرت کا نشان بناتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے بچوں کی بے بسی نے دل کو جو زخم لگائے ہیں اس بے بسی نے ہمیں چیخنے چلانے پر مجبور کر دیا ہے اور مجبوروں کی بددعائیں حکمرانوں کو بھی نشانِ عبرت بنا سکتی ہیں۔