معروف کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے آج کے کالم ’’لائسنس ٹو کل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ریاست مدینہ کا تو ذکر کرتے ہوئے کسی بھی سیاستدان کو ہزار مرتبہ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے‘ وہ تو اللہ کی حاکمیت کا اعلان اور اس کے قوانین کے تابع آخرت کی جوابدہی کے تصور سے عبارت ایک معاشرہ تھا جس کے کسی ایک چھوٹے سے تصور کی جھلک بھی کسی ریاست میں نظر آ جائے تو لوگ پکار اٹھتے ہیں کہ وہ دیکھو انہوں نے اسلام کے اس قانون پر عمل کیا تو آج کس قدر سکون میں ہیں۔
اقبال نے جب اللہ کے حضور شکوہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پہ‘‘ تو جواب شکوہ کا الہامی جواب یہ تھا ’’مسلم آئیں ہوا کافر تو ملیں حور و قصور‘‘۔ ریاست مدینہ کے خواب اپنی جگہ‘ جدید ’’ملمع کار جمہوریت‘‘ بھی شاید یہ سب برداشت نہ کر سکے جو اس ملک میں گزشتہ ستر سال سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف ایک قانونی تحفظ سے قتل و دہشت گردی کا لائسنس دیا گیا ہے۔ ہر ایسے سانحے کو جس میں بے گناہ انسانوں کی جانیں چلی جائیں‘ مارنے والوں کے لیے “Acting in good faith” یعنی وہ نیک نیتی اور اچھے مقصد کے لیے یہ اقدام اٹھا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جامعہ حفصہ‘ ماڈل ٹائون‘ اکبر بگٹی کا قتل یا خروٹ آباد میں مدد کو پکارتی عورتوں کے قاتل قانون کے کٹہرے میں نہیں آ سکے کیونکہ جس دن ان میں سے کسی ایک کی نیک نیتی کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا اور وہ اپنی نیک نیتی اور اچھے مقصد کو ثابت نہ کرسکا تو پھر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جو قتل کرنے کا لائسنس ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ دنیا کے کسی غیر جمہوری ملک میں بھی یہ اختیار نہیں ہے لیکن اس ملک میں گزشتہ پندرہ سالوں سے ہمیں دہشت گردی کے نام پر ڈرا کر اس لائسنس کے تحت قتل‘ اغوا‘ تشدد اور بربریت کو نیک نیتی کے نام پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ روس کوئی جمہوری ملک نہیں ہے اور نہ ہی جمہوری روایات کا حامل۔
جس طرح کی چیچن جنگ جوئوں کے ساتھ اسے جنگ کا سامنا تھا‘ پاکستان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ گروزنی شہر کی جنگ کے مناظر آج بھی دل دہلا دیتے ہیں۔ یکم ستمبر 2004ء کو باسلان کے ایک سکول میں 1300 بچوں کو 32 چیچن جنگجوئوں نے یرغمال بنا لیا۔ یہ سارے بچے ایک جمنیزیم میں جمع کردیئے گئے اور ان سے مذاکرات شروع ہوئے اور اس شام 26 نرسوں اور کمسن بچوں کو چھوڑ دیا گیا۔ چند ایک ایکشن اور سسپنس کے دلدادہ کمانڈروں نے اندر گھسنے کی کوشش کی اور مار دیئے گئے۔
وقفے کے بعد تیسرے دن پھر مذاکرات شروع ہوئے اور چیچن اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ زخمیوں اور مرنے والوں کے لیے ایمبولینس اندر بھیجی جائے لیکن پھر ایکشن اور سسپنس کے شوقین سکیورٹی ایجنسیوں کے افراد اور ایف ایس پی کے لوگوں نے ان مذاکرات کے دوران سکول کی عقبی گرائونڈ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی اور دوسری جانب سے فائر آ گیا۔ کمانڈو بچ گئے لیکن دو میڈیکل ورکر مارے گئے۔
پھر کیا تھا تڑاخ پڑاخ شروع ہوگئی۔ کمانڈوز اپنے ایکشن سے ناکام لوٹے تو فضا میں MI24 اور MI8 گن شپ ہیلی کاپٹر پرواز کرنے لگے اور سکول کو APCBIR گاڑیوں اور ٹینکوں نے گھیر لیا۔ سکیورٹی اہلکار طاقت کے نشے میں کہہ رہے تھے کہ اب ہمارا جانی نقصان ہو چکا اب ہم نہیں چھوڑیں گے۔ پانچویں دن آپریشن مکمل ہوا۔ رات کو سکیورٹی فورسز کے ترجمان نے اعلان کیا کہ کل 331 شہری یعنی بچے اور عورتیں ماری گئی ہیں جبکہ گیارہ کمانڈو ہلاک ہوئے ہیں۔
کسی صحافی کو اس جگہ تک جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ آندرے بیس باٹ کائی سکیورٹی فورسز سے جھگڑا تو جیل بھیج دیا گیا۔ سارے شہر کے ہسپتالوں سے موبائل فون چھین لیے گئے۔ ٹیلیفون پر اپنے لوگ بٹھا دیئے گئے اور ڈاکٹروں کو ہسپتال سے باہر جانے سے روک دیا گیا تاکہ لوگوں تک مرنے والوں کی تعداد نہ پہنچ سکے لیکن اس کے باوجود بھی حقائق لوگوں تک پہنچ گئے۔ سب کی زبان پر تھا کہ 1300 لوگ مارے گئے۔ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومت ان معصوموں کو بچا سکتی تھی۔
اگرچہ اس واقعے کے بعد روس میں سکیورٹی سخت کردی گئی۔ دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو بلاوجہ اور بغیر عدالتی کارروائی کے گرفتار کرلیا گیا لیکن پوٹن کو اندازہ تھا کہ عوامی غیظ و غضب اسے اقتدار سے محروم کرسکتا ہے‘ اس نے پورے روس میں دو دن سوگ کا اعلان کیا۔ وزیر داخلہ کازیک زینٹو نے اسے اپنی ناکامی قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ صدر نے FSB کے سربراہ ولادی آندریو کو برطرف کردیا۔ یہاں تک کہ از دلیٹو اخبار کے ایڈیٹر ریف شاکروف سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔
اس لیے کہ لوگ اور رائے عامہ یہ کہتی تھی کہ یہ شخص آگ بھڑکانے والا تھا۔ اس سارے عرصے میں اس کا رویہ ایک شقی القلب انسان جیسا تھا اور وہ مسلسل یہ لکھتا رہا کہ ’’حکومت ڈٹی رہے۔‘‘ اس شخص کے اندر انسانی جانوں اور معصوم بچوں کے لیے جذبات نہیں تھے۔ ایک کمیشن بیٹھا‘ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی لیکن وہ جن کے معصوم بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے‘ اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے 89 والدین نے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں مقدمہ کردیا۔
یہ مقدمہ ان تمام ایکشن اور سسپنس کے دلدادہ سکیورٹی سربراہوں کے خلاف تھا۔ کہا گیا کہ کیا اس سکول میں ولادی میر پوٹن کا بیٹا ہوتا‘ وزیر دفاع کی بیٹی ہوتی یا سکیورٹی کے سربراہ کا فرزند ہوتا تو ایسا ایکشن ہوتا۔ کیا ریف شاکروف کا بیٹا یا بیٹی اس سکول میں پڑھ رہے ہوتے تو وہ اپنے اخبار میں ایسے مضمون لکھتا کہ حکومت ڈٹی رہے‘ کسی کے ساتھ مذاکرات نہ کرے۔ یہ کسی جمہوری معاشرے یا جمہوری روایات والے معاشرے کا قصہ نہیں ہے۔
صرف ایک ایسے ملک کا قصہ ہے جہاں انسان رہتے ہیں اور وہ اپنے سینوں میں دل رکھتے ہیں لیکن انگریز کی تیار کردہ پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز کے پاس ماضی کی ایسی لاتعداد روایات ہیں جن میں عام شہری کا قتل کر کے قانون کے نفاذ کا تمغہ سینے پر سجایا جاتا ہے۔ امرتسر کے 1919ء کے جلیانوالہ باغ میں گولیاں چلانے والے برطانیہ سے نہیں آئے تھے‘ کلکتہ کے بلیک ہول میں انسانوں کو محبوس کر کے مارنے والے بھی یہیں کے لوگ تھے۔ آج صرف آقا بدل گیا ہے۔ پہلے انگریز تھا اور آج تو اپنی زبان بولنے والا اپنا ہی بھائی بند حکم دیتا ہے۔
اسی لیے 1953ء میں لاہور شہر میں ختم نبوت کے جلوس پر ٹینک چڑھانے سے لے کر ساہیوال میں کار پر حملہ کر کے چار معصوموں کا خون کرنے تک سب نیک نیتی اور نیک مقصد کے قانون کی چادر تلے رہا ہے لیکن ریاست مدینہ کے علمبردار عمران خان کے لیے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ قانون کے پاسبان نئے چیف جسٹس کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اب بھی سوموٹو 184(3) کی تلوار نیام میں رہے گی۔ سوال وہی ہے کہ کیا اگر اس گاڑی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا بیٹا اور بہو سفر کر رہے ہوتے۔
عمران خان صاحب کے دونوں لاڈلے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے اور کسی بھی سکیورٹی فورس کے سربراہ کا کوئی بچہ وہاں موجود ہوتا تو سی ٹی ڈی قتل کرنے کے بعد اس ڈھٹائی سے بیان بدلتی‘ ایسے ان لوگوں کو دہشت گرد کہہ سکتی‘ ایسے قتل کر کے قانون کی چادر میں چھپ جاتی۔