بدھ‬‮ ، 09 جولائی‬‮ 2025 

بے ربط اورطویل گفتگو دماغی بیماری کی علامت ہے : نفسیاتی ماہرین

datetime 16  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا کے میساچیوسٹس جنرل اسپتال کے نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل اور بے ربط گفتگو الزائیمر اور ڈیمنشیا جیسی دماغی بیماریوں کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج انہوں نے گزشتہ دنوں بوسٹن میں ’’امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس‘‘ (AAAS) کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے جن کے مطابق دماغ کو متاثر کرنے والے امراض کی

کچھ اہم ظاہری علامات تقریباً دس سال پہلے ہی نمودار ہونے لگتی ہیں جنہیں پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے۔اب تک مروجہ نفسیاتی معالجے (سائیکاٹری) میں دماغی بیماریوں کا کوئی باضابطہ علاج موجود نہیں اور اس ضمن میں دی جانے والی دوائیں زیادہ سے زیادہ بیماری کی پیش رفت ضرور سست کردیتی ہیں لیکن انہیں کسی بھی صورت میں ایسے امراض کا علاج قرار نہیں دیا جاتا۔میساچیوسٹس جنرل اسپتال کی جینٹ شرمن کی قیادت میں کیے گئے ایک مطالعے میں دماغی طور پر 24 صحت مند اور نوجوان افراد جبکہ 22 ایسے افراد شریک کیے گئے جو ایسے ادھیڑ عمر ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ایم سی آئی‘‘ نامی ایک کیفیت کا شکار بھی تھے یعنی وہ نفسیاتی امراض کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ان افراد میں گفتگو کے انداز اور لفظوں کے استعمال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ صحت مند افراد دوران گفتگو ایک جیسے الفاظ کا بار بار استعمال کرنے سے بچتے ہیں جبکہ ان کی گفتگو بھی غیر ضروری طور پر طویل نہیں ہوتی۔ دوسری جانب ایم سی آئی میں مبتلا افراد کی گفتگو زیادہ طویل تھی جبکہ وہ یکساں الفاظ کا استعمال بھی بار بار کررہے تھے جس سے ظاہر ہوا کہ وہ الفاظ بھولتے جارہے ہیں۔شرمن نے واضح کیا کہ ان کے مطالعے کا تعلق ان افراد سے نہیں جو باتونی مزاج ہوتے ہیں اور عادتاً لمبی لمبی گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، ان کے مطالعے میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ معمول کی گفتگو کرنے والوں کی باتیں طویل اور بے ربط ہوجائیں اور وہ ایک جیسے الفاظ کا استعمال بار بار کرنے لگیں تو ان کے ارد گرد موجود لوگوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگوں میں پیچیدہ باتیں سمجھنے اور پیچیدہ امور انجام دینے کی صلاحیت بھی دوسروں کے مقابلے میں کم ہونے لگتی ہے۔دماغی امراض کی دیگر ابتدائی علامات

میں وقت اور جگہ کے بارے میں کنفیوژن، معمول کے کاموں میں دشواری، قوتِ فیصلہ میں کمی، شخصیت یا طرزِ عمل میں تبدیلی، چیزیں رکھ کر بھول جانا، تخیل کے استعمال میں مشکلات، یادداشت میں کمی اور روزمرہ کاموں پر اس کے اثرات سب سے نمایاں طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

اگرچہ اس مرحلے پر ان لوگوں کو ذہنی طور پر بیمار نہیں کہا جاسکتا لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دس سال کے اندر اندر ایسی علامات رکھنے والوں کو کسی سنجیدہ نوعیت کی دماغی بیماری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو الزائیمر سے لے کر ڈیمنشیا تک، کچھ بھی ہوسکتی ہے

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ساڑھے چار سیکنڈ


نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…