اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایسی خاتون جو پیدائش سے اب تک ایک بار بھی جوتا نہیں پہن سکی حالانکہ اس کے دونوں پیر بالکل سلامت ہیں مگر بہت زیادہ سوجن کے باعث وہ عام حجم کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پھیل چکے ہیں۔ توحیدہ جان نامی یہ خاتون ایک ایسے مرض لمفیٹک فیلارسیز کی شکار ہیں جو بہت لوگوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض کے نتیجے میں خاتون کی بائیں ٹانگ اور پیر سوج کر
کسی ہاتھی کی ٹانگ جیسا ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی جوتے بھی نہیں پہن سکیں۔ 21 سالہ خاتون کے مطابق یہ عارضہ پیدائش سے ہی انہیں لاحق ہے جو کہ عام طور پر ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ گھر تک ہی محدود رہتی ہیں۔ بارکرافٹ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے توحیدہ نے بتایا ‘ میری پیدائش ایسی ہی ہوئی تھی، یہ میرے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث زندگی کبھی نارمل نہیں ہوسکی’۔ انہوں نے بتایا ‘آغاز میں میری تکلیف نے مجھے زیادہ متاثر نہیں کیا، مگر بعد میں میرے جسم کے لیے اس کا بوجھ حد سے زیادہ ہوگیا’۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والی توحیدہ کا مزید کہنا تھا ‘بچپن سے ہی میں کبھی جوتا یا سینڈل نہیں پہن سکی، مجھے ہمیشہ سے فینسی شوز کا شوق تھا مگر اتنی خوش قسمت نہیں تھی کہ انہیں پہن سکتی’۔ توحیدہ کئی بار سرجری کے عمل سے گزر چکی ہیں جس کے دوران شملہ کے ایک ہسپتال میں ان کے پیروں کی 8 انگلیاں کاٹ دی گئیں مگر اب تک بیماری کا علاج نہیں ہوسکا۔ توحیدہ بتاتی ہیں ‘ میری انگلیاں اس لیے کاٹ دی گئیں کیونکہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید اس سے پیروں کو پھولنا تھم جائے، اب میرے پیر کچھ بہتر تو ہوئے ہیں مگر میری بائیں ٹانگ کو کافی مسائل کا سامنا ہے’۔ اپنی بیماری کے باعث وہ تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ تکلیف کے باعث اسکول تک جانا بھی ان کے لیے ممکن نہیں تھا ‘ میں 8 ویں جماعت تک اسکول گئی مگر پھر مجھے اسے چھوڑنا پڑا، میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں، مگر اس کے لیے مجھے دوسرے گاﺅں جانا پڑے گا جو بہت دور ہے، اس لیے مجھے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی’۔ انہیں اپنے پیروں کی وجہ سے ساتھی طالبعلموں کے مذاق کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ توحیدہ کی والدہ سلیمہ اپنے بیٹی کے مستقبل کو لے کر پریشان ہیں کیونکہ علاج میسر نہیں۔
انہوں نے بتایا ‘میری بیٹی کی پیدائش ایسے ہی ہوئی تھی، میں روزمرہ کے کاموں کے لیے اس کی مشکلات کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتی ہوں’۔ توحیدہ کے خاندان نے اسے متعدد شہروں میں لے جاکر ڈاکٹروں سے ملایا تاکہ علاج ہوسکے مگر اب تک زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ توحیدہ بتاتی ہیں ‘ میری حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہورہی ہے، میں کوئی کام نہیں کرپاتی، بلکہ گھر سے باہر تک نکل نہیں پاتی، سردیوں میں
میرے پیروں میں کریکس نمایاں ہوجاتی ہیں کیونکہ میں جوتے نہیں پہن سکتی جبکہ ننگے پیر گھومنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے’۔ مگر توحیدہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نہیں اور اس دن کا خواب دیکھتی ہیں جب وہ دیگر لڑکیوں کی طرح صحیح طرح چلنے اور دوڑنے لگے گی ‘مجھے یقین ہے کہ مجھے کوئی ایسا ضرور ملے گا جو اس بیماری کا علاج کرسکے گا، میں اس دن کا انتظار کررہی ہوں جب میں بغیر تکلیف کے دوڑ سکوں گی’۔