لندن(این این آئی)برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے پاکستانی وزیر خزانہ اسد عمر کے انٹرویو میں سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق گفتگو کو قصداً حذف کیے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سنسر شپ نہیں تھی۔تفصیلات کے مطابق حال ہی میں بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں میزبان اسٹیفن سیکر کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اہمیت کے بہت سے معاملات پر گفتگو کی تھی جن میں کلبھوشن یادیو سے متعلق ان کا موقف بھی شامل تھا۔
اسد عمر کے اس انٹرویو کو ریڈیو پر تو مکمل نشر کیا گیاتاہم ٹی وی پر نشر کیے گئے انٹرویو میں سے وہ حصہ حذف کردیا گیا، جس میں انہوں نے بھارتی جاسوس سے متعلق گفتگو کی تھی۔واضح رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے جاسوس کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، جسے 10 اپریل 2017 کو جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر پاکستان کی جانب سے سزائے موت سنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔کلبھوشن سے متعلق گفتگو کو انٹرویو سے حذف کیے جانے پر ٹوئٹر پر شدید ردعمل دیکھنے میں سامنے آیا اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سمیت دیگر افراد نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ آیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا اور کیا اس کے پیچھے بھارتی ہاتھ ہے؟جس پر بی بی سی ہارڈ ٹاک نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کے انٹرویو میں سے کلبھوشن یادیو کا نام حذف کرنا سنسر شپ کا اقدام نہیں تھا اور بھارتی جاسوس سے متعلق گفتگو انٹرویو کی طوالت کم کرنے کیلئے حذف کی گئی۔بی بی سی کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سے متعلق گفتگو کا حصہ انٹرویو میں شامل کرکے اسے دوبارہ نشر کیا جائیگا تاہم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے برطانوی نشریاتی ادارے کی وضاحت کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بی بی سی کا تعصب ہمیشہ نظر آتا ہے جبکہ اس نے بھارت سے بھاری رقم بھی وصول کی ہوگی۔