ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ماﺅنٹ ایورسٹ پر” گندگی “کے ڈھیر

datetime 20  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوزڈیسک )ماﺅنٹ ایورسٹ کو دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ہر کوہ پیما کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس چوٹی کو ضرور سر کرے جبکہ ہر سال کئی کوہ پیما اسے سر کرنے کا خواب لئے نیپال کا رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ تو اپنے خواب کی تکمیل کر لیتے ہیں تاہم اکثر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چوٹی سے نیچے ہی کئی مقامات پر کیمپوں میں مقیم رہنے کے بعد واپس آ جاتے ہیں۔ان کوہ پیماﺅں نے ”ماﺅنٹ ایورسٹ“ پر قیام کے دوران انسانی فضلے کا ”پہاڑ“ کھڑا کر دیا ہے جسے صحت کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ نیپال کی کوہ پیمائی ایسوسی ایشن کے سربراہ اینگ ٹشرنگ کا کہنا ہے کہ کوہ پیما ماﺅنٹ ایورسٹ پر بڑی تعداد میں انسانی فضلہ چھوڑے کر جا رہے ہیں اور حکومت سیاحوں کو اس بات پر مائل کرے کہ وہ فضلے کو مناسب طریقے سے تلف کریں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارےکے مطابق اینگ ٹشرنگ کا کہنا ہے کہ ’کئی سالوں سے کیمپوں کے اردگرد فضلہ جمع ہو رہا ہے، کوہ پیما برف میں گڑے کھود کر انہیں بیت الخلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور فضلے کو وہیں دبا دیا جاتا ہے۔‘ 2008ءسے اس علاقے میں صفائی مہم پر کام کرنے والے سٹیون شیرپا کا کہنا ہے کہ ’اس مسئلے کا حل ضروری ہے کیونکہ یہ صحت کیلئے ایک خطرہ ہے۔واضح رہے کہ ہر سال مارچ اور مئی کے درمیان 700 سے زیادہ کوہ پیما اور گائیڈز ان کیمپوں میں وقت گزارتے ہیں اور اس دوران ضروری حاجات کو تلف کرنے کے بجائے برف میں دبا دیتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ سٹیون شیرپا کے مطابق کچھ کوہ پیما اونچے کیمپوں پر سفری ٹوائلٹ بیگ استعمال کرتے ہیں جبکہ بیس کیمپوں میں بھی بیت الخلا کیلئے ٹینٹ ہوتے ہیں لیکن کچھ اگلے کیمپوں میں ٹینٹ اور دوسری سہولتیں تو موجود ہیں مگر بیت الخلا نہیں ہیں۔دوسری جانب نیپال کی حکومت کے کوہ پیمائی کے محکمے کی سربراہ پ±شپا راج کتوا کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ابھی کوئی مستقل حل تو نہیں نکالا جا سکا مگر حکام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب وہ کوہ پیماو¿ں کی جانب سے بیس کیمپ پر لائے جانے والے کوڑے کا بھی جائزہ لیں گے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ چوٹی کے اوپر کتنی مقدار میں فضلہ دبایا جا رہا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قوانین کے تحت ہر کوہ پیما کو بیس کیمپ واپسی پر 8 کلو کوڑا واپس لانا ہوتا ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ ہر کوہ پیما تقریباً دوگنا کوڑا پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور واپسی پر ادھا کوڑا راستے میں پھینکتا ہے۔کوہ پیماوﺅں کی ٹیمیں چوٹی پر جانے سے قبل 4,000 ڈالر ضمانت کے طور پر رکھواتی ہیں اور اگر وہ قوانین کی پابندی نہ کریں تو یہ رقم ضبط کر لی جاتی ہے۔



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…