اسلام آباد (این این آئی) اراکین سینیٹ نے کہا ہے کہ توہین رسالتؐ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے، ہمارے جذبات حضور اکرمؐ کیساتھ محبت کے حوالے سے ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں،ملک کو کڑے وقت کا سامنا ہے، معاشی صورتحال کو بہتر بنانے ،قرضوں سے نجات کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی، قانون اور انصاف کی بالادستی کیلئے پارلیمان کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں، مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے
جبکہ وزیر مملکت برائے مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ دھرنوں کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور ملک میں سرمایہ کاری لانے کیلئے کام شروع ہو گیا ہے، پاکستان بدل رہا ہے، اب یہاں ترقی اور خوشحالی آئیگی، اداروں پر میرٹ کی بجائے منظور نظر افراد کی تعیناتی سے وہ خسارے میں چلے گئے لیکن اب ادارے آزاد ہیں،سابق حکومت 1200 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ گئی ہے، حضور اکرمؐ کی عزت، حرمت اور ناموس پر ہماری جان بھی قربان ہے۔منگل کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ مرزا محمد آفریدی، سینیٹر اعظم موسیٰ خیل اور سینیٹر میر محمد کبیر شاہی کو پینل آف پریزائیڈنگ آفیسرز کا رکن مقرر کیاگیا ہے جو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں اجلاس کی صدارت کریں گے۔اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کی ہدایت پر وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اعظم سواتی نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرائی ۔ اجلاس میں ملک پر قرضوں کی صورتحال، یمن میں جنگ بندی کے معاملے پر ثالثی، دھرنوں سے پیدا شدہ صورتحال اور دیگر اہم معاملات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ ہم توہین رسالتؐ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے، ہمارے جذبات حضور اکرمؐ کے ساتھ محبت کے حوالے سے
ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب مسلمانوں کے خلاف سازشیں پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی وہاں سے اس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ سینیٹر اسد جونیجو نے کہا کہ موجودہ حکومت بہت سے وعدے کر کے آئی ہے، اسے اب وہ وعدے پورے کرنے کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ملک کو اس وقت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ توہین رسالتؐ کو ہم کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتے، ممتاز مذہبی اور
سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد سب نے دیکھا کہ کسی قسم کا کوئی پرتشدد احتجاج نہیں ہوا اور نہ ہی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ وہ دفاع پاکستان کونسل اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ تھے، ان کی شہادت کے بعد ہم بھی احتجاج کر سکتے تھے لیکن یہ ہمارا طریقہ کار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان توہین رسالت کے معاملہ پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ قانون اور انصاف کی بالادستی کے لئے ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔
یہاں جنگل کا قانون نہیں چل سکتا لیکن تمام معاملات پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ اس وقت پاکستان پر کڑا وقت ہے، بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں پر اگر نظرثانی کی جاتی ہے تو پہلے ایوان کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں واضح حکمت عملی اختیار کی
جانی چاہئے۔ مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ہم مولانا سمیع الحق کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں، ان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرمؐ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے استحکام کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مولانا مشتاق احمد نے کہا کہ مولانا سمیع الحق ایک بہت بڑے عالم، مدبر اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کے والد بھی بہت بڑے عالم اور
سیاسی مدبر تھے، انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر بھی عوام کے مسائل کو اجاگر کیا اور سماج و معاشرے کے اندر بھی آگاہی پیدا کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تعلیم و تدریس کے شعبہ میں ان کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے درجن بھر سے زائد کتابیں لکھیں، فتاویٰ حقانیہ بہت بڑی کاوش ہے، دارالعلوم حقانیہ قرآن و سنہ کا عظیم مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق نے پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے جدوجہد کی اور ملک میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر ہمیشہ زور دیا۔
خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے میں بھی ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ جس طریقے سے انہیں شہید کیا گیا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے قتل کے محرکات کا پتہ چلایا جائے اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے عوام کے سامنے لایا جائے۔اجلاس میں نکتہ اعتراض پر سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے تین دن ملک بند رہا اور آئین کے تحت قائم اداروں کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی،
اس حوالے سے پورے معاملے کو ایوان میں زیر بحث لایا جانا چاہئے اس کیلئے وقت مختص کیا جائے کیونکہ اگر پارلیمان اس پر بحث نہیں کرتی تو پھر پارلیمان کا کیا مقصد ہے۔ اجلاس میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے مولانا سمیع الحق کی شہادت پر تعزیتی قرارداد پیش کرتے ہوئے یہ ایوان ممتاز عالم دین اور سیاسی رہنماء جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے۔ مولانا سمیع الحق 8 دسمبر 1936ء کو اکوڑہ خٹک ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دارالعلوم حقانیہ سے حاصل کی اور اسی دارالعلوم سے گریجویشن بھی کیا، 1980ء میں انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 1988ء میں اپنی سیاسی جماعت جے یو آئی (س) قائم کی۔ 1985ء سے 1991ء، 1991ء سے 1997ء اور 2003ء سے 2009ء تک وہ سینیٹ کے رکن رہے جبکہ 1983ء سے 1985ء تک مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر انہوں نے ذمہ داری ادا کی۔ انہوں نے کہاکہ مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم تھے،
انہوں نے سینیٹ کے رکن کے طور پر مختلف قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور رکن کی حیثیت سے کام کیا اور قومی و بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور کئی اہم مسائل پر بھرپور تقاریر کیں۔ بطور عالم دین اور سیاسی رہنما ان کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ اﷲ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے، ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطاء فرمائے۔ قرارداد پیش کرنے کے بعد ایوان نے اس کی منظوری دیدی۔قرضوں کی صورتحال اور
دیگر معاملات پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے مواصلات مراد سعید نے کہا کہ ہمارا آئین اور قانون پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے لیکن املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائیگی، اس سلسلے میں وزارت داخلہ کو تصاویر موصول ہو چکی ہیں اور کارروائیوں کا بھی آغاز ہو چکا ہے جن میں گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی بہتر حکمت عملی سے یہ دھرنا ختم کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں ہر ہفتہ ایک گھنٹہ سوالات کا جواب دینے
کا اعلان کیا تھا لیکن اس حوالے سے قانون سازی میں اپوزیشن نے رکاوٹ ڈالی اور بات آگے ابھی تک نہیں بڑھ سکی۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر اس وقت جو قرضے ہیں وہ تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں لئے بلکہ یہ قرضے سابقہ حکومتوں نے لئے جو عوام پر خرچ نہیں کئے گئے، اسی وجہ سے آج ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، بجلی کا شعبہ اور دیگر ادارے خسارے میں ہیں۔ 1200 ارب روپے کا گردشی قرضہ ہے۔ آج رکشہ والے، طالب علم اور فالودے والے کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے مل رہے ہیں۔ ہم نے ان کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کرنے والے مسیحا کا نام تو نہیں لیا۔ وزیراعظم جب کہتے ہیں کہ چوروں کو جیلوں میں ڈالیں گے تو اپوزیشن کیوں شور مچاتی ہے۔ آج ادارے آزاد ہیں، وہ اپنی کارروائی کریں گے اور چوروں کو جیل جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 126 دن کا پرامن دھرنا دیا تھا اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا جو بعد میں ثابت ہو گیا کہ ہمارا مطالبہ درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا ہے۔ چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو کیوں متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم نے وعدہ کیا ہے کہ سی پیک کو کامیاب بنائیں گے اور بروقت مکمل کریں گے۔ سعودی عرب اور چین مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ہر پاکستانی کو ہم گھر دیں گے، پچھلے 15 سال میں ملک میں کم ترین سرمایہ کاری رہی ہے، ہم اب سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہے ہیں، خارجہ پالیسی کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔ کسانوں پر بوجھ کم کیا ہے اور ان کے لئے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ پانچ روپے کمی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان بدل رہا ہے، یہاں ترقی ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) بدھ کی سہ پہر اڑھائی بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔