مولانا سمیع الحق جیسے قدآور دینی و سیاسی رہنما ، ہزاروں علمائے دین کے استاد اور مجاہدینِ اسلام کے قائدکاجمعہ کی شام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی ایک بارونق بستی میںسرشام اپنے گھر کے اندرتادم تحریر دستیاب معلومات کے مطابق نامعلوم قاتل کی چھری کے واروں سے شہید کردیاجانا بلاشبہ ہماری قومی تاریخ کے بڑے سانحات میں ایک اور انتہائی المناک اضافہ ہے۔
دارالعلوم حقانیہ کی شکل میں قیام پاکستان کے وقت سے اپنے والد کے قائم کردہ ملک کی سب سے بڑی دینی درس گاہ کی وہ پچھلے تین عشروں سے سربراہی کے فرئض انجام دے رہے تھے جبکہ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے سیاسی محاذ پر بھی پوری طرح سرگرم تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کی تقسیم کے بعد سے وہ اس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے اور دوبار قومی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے۔افغان امن عمل کے حوالے سے ان کی اہمیت ، طالبان پر ان کے اثر و رسوخ ، پاک افغان تعلقات کی بحالی اور دونوں ملکوں سمیت پورے خطے میں امن واستحکام کیلئے ان کی دلی خواہش اور عملی کاوشیں، ان کی ذات کے وہ پہلو ہیں جن سے ملک و قوم کیلئے ان کی شدید ضرورت اور غیر معمولی قدر و قیمت پوری طرح واضح ہے۔ملک کے تمام دینی وسیاسی مکاتب فکر دین و ملت کے لیے ان کی بیش بہا خدمات کے معترف ہیں۔ اس واردات کے لیے وقت کے انتخاب، اس کے طریق کار، وقوعے کی متضاد ابتدائی اطلاعات اور صورت حال کے دوسرے کئی پہلوؤں نے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں ۔ اس کارروائی کے لیے شاطر مجرموں نے ایسا وقت چنا جب ملک بھر میں دھرنے جاری تھے اور افراتفری کی سی کیفیت تھی جس کی بنا پر مولانا جیسی شخصیت کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظامات انتہائی ضروری تھے۔جس مسئلے کی وجہ سے ملک کی یہ کیفیت تھی اس کے پرامن حل کے لیے بھی مولانا کوشاں تھے ۔بین الاقوامی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا کی
انتہائی حفاظت اس بناء پر وقت کا تقاضا تھی کہ امریکہ کی خواہش پر پاکستان ایک بار پھر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سرگرم ہے اور حال ہی میں اس مقصد کے لیے دو بڑے طالبان رہنماؤں کی رہائی بھی عمل میں لائی جاچکی ہے جبکہ افغان امن عمل کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذاکرات کو عین اس وقت ناکام بنانے کیلئے جب اس کے لیے حالات سازگار ہونے لگتے ہیں سبوتاژ کی کوئی کارروائی عمل میں
لے آئی جاتی رہی ہے۔پچھلے برسوں میں امن مذاکرات کے آغاز سے عین پیشتر عبداللہ محسود اور ملا اختر منصور کا ڈرون حملوں میں قتل اور ملا عمر کے انتقال کی اطلاع کا لیک کیا جانا جس کے بعد مذاکرات منسوخ ہوگئے، اس حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہیں۔ اس المناک واردات کا یہ رخ بھی ناقابل فہم ہے کہ خبر رسانی کے اس برق رفتار دور میں وقوعے کے بارے میں ابتداء میں بالکل غلط طور پر یہ خبر آئی کہ مولانا کی کار پر
دو موٹر سائیکل سواروں نے راستے میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئے۔ آخری وقت میں آنے والے وہ دو مہمان کون تھے جنہیں گن مین اور ڈرائیور مولانا کے پاس چھوڑ کرگئے تھے، اس سوال کا درست جواب بھی حقائق تک پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ پولیس کے ذرائع نے وقوعے کے فوراً بعد اسے ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہونے کا گمان ظاہر کیا جبکہ مرحوم کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کے بقول ملک کے
خفیہ اداروں کی جانب سے بتایا جاتا رہا تھا کہ ان کے والد کئی بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کی ٹارگٹ لسٹ پر تھے اور یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے ۔یہ وہ امور ہیں جنہوں نے اس واردات کو انتہائی پراسرار بنادیا ہے اور ضروری ہے کہ تمام پہلوؤں سے مکمل تحقیقات کرکے حقائق کم سے کم وقت میں قوم کے سامنے اور مجرم قانون کی گرفت میں لائے جائیں۔ مولانا سمیع الحق شہید کی جدوجہد اور تعلیمات کی روشنی میں قوی امید ہے کہ ان کے شاگرداور معتقدین صبر و تحمل سے کام لیں گے، اشتعال کا شکار نہیں ہونگے اور دین وملت کی خدمت کے ذریعے ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔