بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

فیصل ایدھی ہراسگی میں ملوث نکلے! گاڑی میں لفٹ دینے کے بہانے لڑکی سے کیا حرکات کرتے رہے؟ سنگین ترین الزامات سامنے آگئے

datetime 11  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی فلم انڈسٹری بالی ووڈ میں اس وقت ’’می ٹو مہم‘‘شروع ہے اور کئی معروف اداکارائوں نے معروف اداکاروں اور ہدایتکاروں پر ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔اس سے قبل پاکستان میں بھی دنیا بھر میں چلنے والی اس مہم کے اثرات اس وقت دیکھے گئے جب پاکستان کی معروف گلوکارہ میشا شفیع نے اداکار ، گلوکار علی ظفر پر ہراسانی کا الزام عائد کیا۔

مگر اب ایک بار پھر پاکستان میں اسوقت سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو چکا ہے اور اس بار سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک خاتون صارف نے عالمی شہرت یافتہ اور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی پر ہراسانی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ ٹویٹر صارف عروج ضیا نے فیصل ایدھی پر ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی تمام کہانی ٹویٹر پیغام میں لکھی ہے۔ عروج ضیا کا کہنا تھا کہ اس وقت ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ اور عبدالستار ایدھی مرحوم کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے انہیں 22سے 23سال کی عمر میں ہراساں کیا۔ اور اس بات کا علم صرف میرے شوہر کو ہے کیونکہ میں نے ان کے علاوہ کسی کو اس حوالے سے نہیں بتایا مگر اب میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کو اس کا علم ہونا چاہئے ۔ عروج ضیا پنے پیغام میں لکھتی ہیں کہ یہ سب تب کی بات ہے جب میں ایک نوجوان لڑکی تھی اور میں ان معاملات سے متعلق مکمل آگاہی نہیں رکھتی تھی۔اس وقت فیصل ایدھی کی حرکات سے میں نے خود کو ہی موردالزام ٹھہرایا کہ شاید میری کسی حرکت کی وجہ سے وہ میری جانب متوجہ ہوئے ہیں تاہم اب جب کافی عرصہ گزر چکا ہے تو میں محسوس کرتی ہوں کہ غلطی میری نہیں تھی۔ عروج ضیا لکھتی ہیں کہ عروج ضیاء نے بتایا کہ وہ اُس وقت کراچی کی کمیٹی پارٹیز کی ممبر تھیں۔ہماری پارٹی کے لیے فنڈز کی کمی ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ فیصل ایدھی ہماری

مدد کرنا چاہتے ہیں، پارٹی کی جانب سے مجھے فیصل ایدھی سے ملاقات کرنے کو کہا گیا کیونکہ میرا دفتر فیصل ایدھی کے ٹاور سینٹر سے قریب تھا۔ اُس وقت میں دی نیوز میں رپورٹر تھی۔میں 6 بجے کے قریب ایدھی سینٹر پہنچی جہاں میں نے فیصل ایدھی سے ملاقات کی۔ملاقات کے دوران فیصل ایدھی خاصی تہذیب سے پیش آئے تھے۔ ہم نے مل کر کام کرنے اور باہمی دلچسپی کے امور پر

تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات ختم ہونے پر میں واپسی کے لیے اپنی نشست سے اُٹھی تو فیصل ایدھی نے مجھ سے دیارفت کیا کہ میں کس طرح آفس پہنچوں گی ؟ جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ میں یا تو ٹیکسی لوں گی یا پھر رکشہ، اگر کچھ بھی نہ ملا تو پیدل ہی چلی جاؤں گی، مجھے یہاں سے پیدل دفتر جانے میں صرف 15 منٹ لگیں گے جس کے بعد فیصل ایدھی نے مجھے دفتر تک چھوڑنے کی پیشکش کی۔

میں نے بھی حامی بھر لی کیونکہ فیصل ایدھی عمر میں مجھ سے کئی سال بڑے تھے۔ انہوں نے ملاقات کے دوران بھی تہذیب اختیار کر رکھی تھی اور مجھے ان کی پیش کش ٹھکرانے کی اس وقت معقول وجہ بھی سمجھ نہ آئی۔ فنڈ کیلئے انہوں نے مزید رابطے کیلئے میرا نمبر مانگا جو کہ میں نے انہیں دیدیا۔ انہوں نے مجھے ایک سوزوکی کیری ڈبے میں فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور کچھ دیر میں مجھے

میرے دفتر پہنچا دیا۔ میرے گاڑی سے اترتے وقت انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا جس پر میں نے ان سے مصافحہ کیا اور اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ فیصل ایدھی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ کر مجھے گاڑی کے اندر کھینچنے کی کوشش کی، میں نے غصے میں اپنا ہاتھ چھڑوایا اور دفتر کے گیٹ کی طرف چل پڑی ۔ اس دوران میں نے سوچا کہ شاید مجھے غلط فہمی ہوئی ہے

ہو سکتا ہے فیصل ایدھی اس بات کو یقینی بنا رہے ہوں کہ میں بحفاظت اُتر گئی ہوں کیونکہ وہ فیصل ایدھی تھے اور میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اس قسم کی کوئی نامناسب حرکت کر سکتے ہیں۔ مگر یہ شروعات تھی ، چند دنوں بعد فیصل ایدھی نے آدھی رات کو تقریباً 2،3 بجے مجھے موبائل پر پیغامات بھیجنا شروع کر دئے۔ اوریہ پیغامات کام سے غیر متعلق ہوتے۔میری کیونکہ اس وقت

ماہانہ تنخواہ کم تھی اور میںفیصل ایدھی کے کسی غیر متعلقہ پیغام کا جواب دے کر اپنا موبائل بیلنس ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اگلے دن میں دفتر جانے کے لیے تیار ی کر رہی تھی کہ 4 بجے مجھے فیصل ایدھی کی کال آئی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ان سے ناراض ہوں؟مجھے ان کے اس سوال کی سمجھ نہیں آئی ، مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں

اور یہی میں نے ان سے بھی کہا ۔جس پر فیصل ایدھی نے کہا کہ آپ میرے پیغامات کا جواب نہیں دے رہی تھیں لہٰذا مجھے لگا کہ آپ ناراض ہیں۔ فیصل ایدھی کی بات سُن کر میں نے کہا کہ میرے پاس موبائل میں بیلنس موجود نہیں تھا اور ویسے بھی مجھ سے میسجنگ نہیں ہوتی۔ فیصل ایدھی نے مجھے موبائل بیلنس بھیجنے کی پیشکش کی جس سے میں نے انکار کر دیا۔ فیصل ایدھی نے کہا کہ دوست ہی دوست کے کام آتا ہے ،

کیا ہم دوست نہیں ہیں؟ میں نے ان سے معذرت کی اور کہاکہ مجھے کام پر جانا ہے جس کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔ اُس وقت بھی مجھے فیصل ایدھی کے غیر مناسب رویے کا اندازہ نہیں ہوا۔تاہم اُس رات فیصل ایدھی نے مجھے رات 3 بجے فون کیا ، چونکہ میں بہت تھک گئی تھی لہٰذا میں نے فون نہیں اُٹھایا۔اگلے دن فیصل ایدھی نے دوبارہ کال کی اور ملاقات کا کہا۔میں نے ان کو بتایا کہ میں

اس ہفتے کافی مصروف ہوں جس پر فیصل ایدھی نے مجھے بتایا کہ میں آج رات لندن جا رہا ہوں اور اگر ہم آج نہ ملے تو اگلے کئی دن ملاقات نہیں ہو سکے گی اور پارٹی کا کام ادھورا رہ جائے گا ۔دو راتیں گزری تھی کہ فیصل ایدھی نے مجھے تیسری رات ڈھائی بجے فون کیا،میں نے فون نہیں اُٹھایا تو فیصل ایدھی نے مجھے میسج بھیجا کہ ضروری بات ہے اور پارٹی سے متعلق ہی بات کرنی ہے۔

جس کے بعد انہوں نے دوبارہ فون کیا اور میں نے ان کا فون اُٹھا لیا۔ فون پر فیصل ایدھی نے کہا میں لندن میں ہوں اور میں وہاں سے آپ کو فون کر رہا ہوں کیونکہ عروج آپ ایک خاص لڑکی ہیں۔جس پر میں ہڑ بڑا کر اُٹھی اورفیصل ایدھی سے دوبارہ دریافت کیا۔فیصل ایدھی نے اپنے وہی الفاظ دوہرائے ، میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ فیصل ایدھی نے مجھے کہا کہ اگر میں نے ان سے دوستی

نہ کی تو پارٹی فندنگ کا کام بھی معطل ہو جائے گا ، یہ سُن کر میں نے فون بند کیا۔عروج ضیاء کا کہنا ہے کہ اُس وقت فیصل ایدھی شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی تھے۔فیصل ایدھی نے اُس رات مجھے تب تک فون کیا جب تک میں نے اپنا فون بند نہیں کر دیا۔ عبد الستار ایدھی کے بیٹے کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر میں خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس کے بعد نہ تو میں نے کبھی فیصل ایدھی کا فون اُٹھایا

اور نہ ان سے کبھی ملاقات کی اور نہ ہی پارٹی کو اس کے بعد کوئی فنڈ ملا۔تنگ آ کر میں نے اپنا نمبر بدل لیا۔ عروج ضیا نامی اس سابقہ خاتون صحافی کے انکشافات کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو چکا ہے اور صارفین عروج ضیا کے الزامات پر ملا جلا تاثر دے رہے ہیں تاہم فیصل ایدھی نے عروج ضیا کے الزامات سامنے آنے کے بعد تاحال کوئی مؤقف یا ردعمل نہیں دیا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…