اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ زیادہ پرانی بات نہیں ہم گھر اور اسکول میں بھاگتے دوڑتے ہوئے نلکے کو منہ لگاکر پانی پی لیاکرتے تھے۔ پھرہم نے ترقی کرنا شروع کردی۔ ہم نلکے کےپانی سے خوفزدہ ہو گئے۔ ہمیں بتایاگیا کہ نلکے کا پانی بیماریاں پھیلاتا ہے۔ پہلے پہل اُبلے ہوئے پانی کااستعمال شروع ہوا لیکن پھرہرطرف
منرل واٹرکے نام پرپلاسٹک کی بوتلوں میں بھرا پانی بکنے لگا۔ کئی سال تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ منرل واٹر کی بوتلوںکا پانی پہاڑی علاقوں کےچشموں سے آتا ہے لیکن پھر ایک دوست نے ہمیں جہالت کےاندھیروں سے نکالنے میں مدد کی۔ یہ دوست پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) لاہور میں کام کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے ہمیں منرل واٹر کے نام پر پانی کی بوتلیںفروخت کرنے والی کمپنیوں کی پراڈکٹ کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بوتلوںمیں فروخت ہونے والا پانی پہاڑی چشموں سے نہیںآتا بلکہ زمین کے نیچے سے نکالا جاتا ہے اور ٹریٹمنٹ کے بعد بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جاتا ہے۔ پی سی ایس آئی آر نےبوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی کا کیمیائی تجزیہ کیا تو کئی کمپنیوں کا پانی مضرصحت نکلا۔ آہستہ آہستہ پتا چلنا شروع ہوا کہ بوتلوںمیں فروخت ہونےولا پانی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مضرصحت ہوتاہےکیونکہ اس پانی کو پلاسٹک کی بوتلوں میں ڈالنے کے بعدپانی کو جراثیم سے محفوظ رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ پلاسٹک کی خالی بوتلیں انسانی زندگی اور ماحول کےلئے جو مسائل پیدا کرتی ہیں ان پربھی لمبی گفتگو ہوسکتی ہے لیکن افسوسناک پہلویہ ہے کہ ہر شہری کوپینے کا صاف پانی مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست اپنے شہریوں کو یہ بنیادی حق فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
شہریوں کو پانی خریدناپڑتاہے اور جو پانی خرید کر استعمال کیاجاتا ہے وہ بھی بیماریوں سے پاک نہیں ہوتا۔ ریاست کمزورہے اور غیرریاستی عناصر مضبوط ہیں۔ پاکستان میں اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ ریاست کے مقابلے پر غیرریاستی عناصر کوکس نے مضبوط کیا؟ غیرریاستی عناصر صرف ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو سمجھا جاتا ہے جوریاست کے خلاف ہتھیاراٹھا لیتے ہیں
لیکن ان غیرریاستی عناصر کی طرف توجہ نہیں دی جارہی جو بڑی خاموشی سےریاست کی سرپرستی میں ریاستی وسائل کو لوٹ کراس کے اپنے ہی شہریوںکو فروخت کرتے ہیں اور جب سپریم کورٹ ان غیرریاستی عناصر یا بڑی کمپنیوں کو یہ پوچھتی ہے کہ آپ نے کس کی اجازت سے کون سے قانون کے تحت کتنا زیرزمین پانی نکال کر بوتلوں میں بھرا، خود کتنا منافع کمایا اور ریاست کو
کتنا ٹیکس ادا کیاتو پھر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ پاکستان اور اس کے اردگرد ممالک میں فری ٹریڈ کے نام پر کاروبار کرنے والی کئی بڑی کمپنیاں فیئر ٹریڈ نہیں کررہیں اور ایسے نان اسٹیٹ ایکٹرز میں تبدیل ہو رہی ہیں جو اسٹیٹ سے زیادہ مضبوط ہیں۔ہمیں نہیں بھولناچاہئے کہ جنوبی ایشیامیں برطانوی سامراج کا تسلط ایسٹ انڈیاکمپنی
کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ آج ہمیں اپنے اردگرد بہت سی ایسٹ انڈیا کمپنیاں نظر آرہی ہیں۔ یہ کہیں پرزمین سے تیل نکال رہی ہیں، کہیں کوئلہ نکال رہی ہیں، کہیںبجلی بنا رہی ہیں، اسلحہ بنارہی ہیں، ادویات بھی بنارہی ہیں لیکن یہ ادویات عام آدمی کو مناسب قیمت پر دستیاب نہیں ہوتیں۔ سڑکیںاورپل بھی بنا رہی ہیں لیکن ان تعمیراتی منصوبوںکی شفافیت پرسوال اٹھایا جائے تو ناپسندیدگی کااظہارکیاجاتا ہے۔
اب غریبوں کیلئے لاکھوںکی تعداد میں گھر بنانے کے منصوبے بھی شروع کئے جارہے ہیں۔ یہ منصوبے انہی مقامی سہولت کاروں کی خاموش پارٹنرشپ سے شروع کئے جائیں گے جو پہلے ہی غریبوں کی زمینوں پر قبضے کر کے امیروں کے لئے ہائوزنگ اسکیمیں بنانے کے سلسلے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح پورٹس اینڈ شپنگ کے شعبے میںسرمایہ کاری کرنے والے مقامی
مچھیروںکو بیروزگار کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا مقامی مچھیروںکے حقوق کو محفوظ بنا کرغیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی؟ غیرملکی کمپنیاں اپنے فائدے کے لئے یہاں آرہی ہیں۔ وہ ہماری زمین اورہمارے وسائل استعمال کرکے منافع کمانے آئے ہیں تو پھر ہماری ریاست کو بھی اپنے مزدور اور کسان کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے۔ کیاہمیںاپنی ہی زمین سے نکالے گئے
پانی کو مناسب قیمت پر استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں؟ اگر بجلی بنانے والی کمپنیاں ہمارے ہی وسائل سے بجلی بنا کر ہمارا ماحول آلودہ کرتی ہیں تو کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ ان کمپنیوںکو آلودگی پھیلانے سے روکے؟ ان نئی ایسٹ انڈیا کمپنیوںکا احتساب کون کریگا؟دورِ جدید کی نئی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں یا ٹرانس نیشنل کمپنیاں بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کی صرف دس فیصد
بڑی کمپنیاں عالمی سطح پر 80فیصد منافع میں حصہ دار ہیں۔ ایپل، وال مارٹ اور شیل سمیت دنیا کی دس بڑی کارپوریشنوں کاکل منافع دنیا کے 180غریب ممالک کی آمدن سے زیادہ ہے اوریہی وجہ ہے کہ جب بھی اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے میں ان بڑی کمپنیوںکو انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو امریکہ جیسے امیر ممالک اس کی
مخالفت کرتے ہیں۔ چلی کے سابق صدر سلواڈور الاندے نے 1972میں اقوام متحدہ میں پہلی دفعہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ایک عالمی ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ الاندے نے چلی میں نیشنلائزیشن کی پالیسی شروع کردی جس پر چلی کی فوج اورعدلیہ ناراض ہوگئی۔ الاندے کے خلاف فوجی بغاوت ہوگئی۔ الاندے نے فوج کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے اپنے آپ کو
گولی مار لی لیکن جو بات انہوں نے اقوام متحدہ میں کی، اس کی گونج ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 2014میں ایکواڈور اور جنوبی افریقہ نے یہ مشترکہ قرارداد پیش کی تھی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکا جائے اور 1948کے یونیورسل چارٹر برائے ہیومن رائٹس پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔ اس سلسلے میں
پاکستان کے اندر بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگاکر انہیں جیل میں پھینکنا بہت آسان ہے لیکن پاکستان کے وسائل لوٹنے اور ٹیکس چوری کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایک سیاستدان کی کرپشن ناقابل معافی ہے اور اس کے خلاف جے آئی ٹی بنائی جاسکتی ہے تو اربوں روپے کے وسائل لوٹنے اور ٹیکس چوری
کرنے والی کمپنیوں کے خلاف جے آئی ٹی کیوں نہیں بن سکتی؟ ہمارے سیاستدان اکثر ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن وقت آگیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر مل کران کے خلاف بھی آواز اٹھائیں جوہماری زمین سے ہمارا پانی نکال کر ہمیں بیچتے ہیں، جو ہمارے ساحلوں سے ہمارےمچھیروں کوبے دخل کردیتے ہیں اور جب کوئی کہے کہ سب سے پہلے پاکستانیوں کے حقوق کاخیال کرو تو وہ پاکستان کا دشمن قرار پاتا ہے۔