معروف کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے آج کے کالم سب مایا ہے میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔مادہ پرست بڑے ضدی ہیں وہ دلیل اور ثبوت کے بغیر دعوئوں کو نہیں مانتے وہ محیرالعقول واقعات اور پراسرار کہانیوں پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں دو جمع دو چار ہوتا ہے اور اگر کوئی کہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو وہ ہنستے ہیں،
مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ ظالم مادہ پرست صرف اور صرف عمل کو مانتے ہیں انہیں نیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ مطلب پرست تھیوری پر نہیں پریکٹیکل پر یقین رکھتے ہیں وہ مظاہر اور مادے کو ہی مانتے ہیں اسی لئے تو ان کا ایمان ہے کہ ’’سب مایا ہے‘‘ فرہنگ آصفیہ میں مایا کے حوالے سے یہ شعر درج ہے؎
مایا کو مایا ملے کر کے لمبے ہات
تلسی داس غریب کی کوئی نہ پوچھے بات
مادہ پرست بڑے گھٹیا ہوتے ہیں، کہتے ہیں جذبوں میں جتنی بھی سچائی ہو، خلوص جتنا بھی گہرا ہو اور خیالات میں جتنی بھی تمازت ہو، حالات تب بدلتے ہیں جب کچھ کر کے دکھایا جائے، سوچنے سے، آنسو بہانے سے کف افسوس ملنے سے کچھ نہیں بدلتا، تاج و تخت کے لئے روحانی نہیں مادی نسخے چلتے ہیں۔ داراشکوہ کو ہندو مسلم روحانی دنیا حتیٰ کہ جوگیوں کی دعائیں اور اشیرباد بھی حاصل تھی، کٹھ ملا مگر عملی انسان اورنگ زیب عالم گیر نے اسے شکست فاش دیدی۔ سائنسی اور مادی اصول اب بھی وہی ہیں ۔ سورج اپنے وقت مقررہ پر چڑھتا اور وقت مقررہ پر غروب ہوتا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہوا اس کی چال میں فرق نہیں آتا۔مڈل کلاس کی بیٹھکوں اور چوپالوں میں ہونے والی بحث اور کافی ہائوسز میں سوسائٹی کی غلطیوں پر کئے جانے والے مکالموں کا مقصد تو نیک ہوتا ہے مگر افسوس اس بحث اور مکالمے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے خیالات بہت عمدہ ہیں، نیت بھی بہت اچھی ہے مگر عمل میں تاخیر ہورہی ہے یہ تو طے ہے کہ اسٹیل مل، پی آئی اے اور باقی سرکاری کارپوریشنز جو 1000ارب کے قریب سالانہ ہڑپ کر جاتی ہیں، ان کا کچھ کرنا اور فوری طور پر کرنا ضروری ہے۔ جہانگیر ترین اہل ہوتے اور وزیراعظم عمران خان پر اثر انداز ہوسکتے ہوتے تو اب تک یہ تمام سرکاری کارپوریشنز نجکاری کے مرحلے سے گزر رہی ہوتیں، مگر ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر صرف مارکیٹ اکانومی کے قائل نہیں۔
سوشل ویلفیئر کا تڑکا بھی لگاتے ہیں۔ اس لئے وہ کوئی درمیانی راستہ نکالناچاہتے ہیں۔ عمران خان نے ان اداروں کو بہتر کرنے کے لئے اپنے ذہن میں سمندر پار پاکستانیوں کی ٹیم بنا رکھی تھی، اس ٹیم کو فوراً بلایا جائے۔ اسد عمر صاحب کا ان اداروں کے بارے میں نیم دلانہ حل آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کےمترادف ہوگا۔ اسی طرح چودھری فواد حسین کی ریڈیو اور ٹی وی پر بھرتیوں کے بارے میں زور دار اور طنزیہ تقریریں تب ہی عزت پائیں گی جب وہ ان مسائل کے حل کی طرف جائیں گے۔
یاد رکھیں صرف تبدیلی کی باتیں کرنے سے تبدیلی نہیں آتی، تبدیلی عمل سے لانا پڑتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو پہلے ہی دن سے تبدیلی آگئی تھی اور پھر ہر دن ہی کسی نہ کسی تبدیلی کی خبر آتی تھی اور یہ سلسلہ آخری دن تک جاری رہا۔یہ درست کہ تبدیلی راتوں رات نہیں آتی لیکن تبدیلی آنے کی خبر تو پہلے ہی آجاتی ہے۔ تبدیلی لانے سے پہلے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ کیا قومی سیکرٹریٹ اور صوبائی سیکرٹریٹ کی بتیاں رات کو جلتی نظر آتی ہیں یا یہاں دیئے سرشام ہی بجھ جاتے ہیں؟
جب غیر معمولی اقدامات کیلئے غیر معمولی اوقات ہی صرف نہیں کئے جارہے تو پھر منصوبہ بندی کیسے ہوگی؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ نئی پالیسی بنانی ہو یا نیا پروجیکٹ لانا ہو تو گھنٹوں اور ہفتوں بحث مباحثے ہوتے ہیں۔ اتفاق رائے ہوتا ہے، کابینہ سے توثیق ہوتی ہے، پی سی ون بنتا ہے، بجٹ مختص ہوتا ہے، پھر کام شروع ہوتا ہے اور انتہائی صبر سے ان منصوبوں کے مکمل ہونے کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں تاریخ دعوئوں کو نہیں عمل کو یاد رکھتی ہے۔خوش گمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن مادی دنیا کا نظام مادی طور طریقوں سے ہی چلانا پڑے گا۔ چھومنتر سے دل تو خوش ہو جاتا ہے مگر مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ بقول حکومت معیشت کا برا حال ہے، ہر جگہ تباہی ہی تباہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہماری نئی مسیحا حکومت کو ان بیماریوں کا علاج کرنا چاہئے۔یہ ’’سب مایا ہے‘‘ یہ یقین رکھنے والے اس دنیا کے حکمران ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم نے مادیت پرستوں کو عروج تک پہنچا دیا ہے اور دلی روشنی رکھنے والے مشرقی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
دنیا میں کئی جگہ ایسا ہوا ہے کہ مقابلہ کی ہمت نہ پا کر لوگ اپنے آپ کو کیپسول میں بند کرلیتے ہیں اور اپنے دل کو اس جھوٹ سے تسلی دیتے ہیں کہ مغربی آلائشوں سے بچنا ہی اصلی مشرقیت ہے۔ یوں وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدیدیت کے مقابلے میں چھومنتر، جگاڑ اور قدامت پسندی کا نقاب اوڑھ لیتے ہیں لیکن مزا تو تب ہے کہ جاپان کی طرح اپنی مشرقی اور مذہبی اقدار کو لیکر سائنس اور ٹیکنالوجی سے مطابقت اختیار کریں۔
مہاتما گاندھی سوت کاتنے اور بکریاں رکھنے کی تلقین کرتے رہے جبکہ مسٹر جناح اور علامہ اقبال تھری پیس سوٹ پہن کر جدید دنیا کے شہری کی حیثیت سے اپنی مذہبی اور اسلامی روایات پر عمل کرنے کی بات کرتے رہے۔ یہی وہ اعتدال کا راستہ ہے جس پر چلنا ہوگا، یہی پاکستان کا مقدر ہونا چاہئے۔اس مادی دنیا میں ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں۔ دوستی اور دشمنی بھی مفادات ہی کے تحت ہوتی ہے۔
بھارت کے مفادات پاکستان سے متضاد ہیں۔ اسی طرح افغانستان مسلم ملک ہونے کے باوجود ہم سے الگ خیالات اور مفادات رکھتا ہے اور تو اور چین اور سعودی عرب جیسے مخلص دوست ممالک کے بھی اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ہر ملک دوسرے سے زیادہ آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے۔ اس طرح کی مادی دنیا میں کہیں سے بھی غیبی امداد آنے یا رحم کھانے کا کوئی امکان نہیں۔ اقتصادی بدحالی سے نکالنے کا کوئی بھی ایسا خفیہ فارمولا نہیں جو ہم استعمال کر سکیں۔ معاشی اصول واضح ہیں کہ برآمد بڑھائیں، درآمد کم کریں۔ ریاست کا ہر شہری ٹیکس دے تاکہ وہ رعایات و مراعات کا حقدار بھی ٹھہرے۔ اگر ان بین الاقوامی مادی پالیسیوں کے علاوہ کوئی راستہ اپنایا گیاتو اس سے کچھ عرصہ دل خوش تو ہوسکتا ہے مگر اس سے طویل مدتی نقصان ہوگا۔