اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، کالم نگار و تجزیہ کار حامد میر اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ25جولائی کے بعد ان دوستوں نے دو تین دن تک دھاندلی کا بہت شور مچایا لیکن جب بات نہ بنی تو پھر نئے پاکستان کے لطیفوں سے دل بہلانا شروع کردیا۔ دوسری طرف کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جو 25جولائی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے
بعد سے سکتے میں ہیں۔ایسے ہی ایک صاحب سکتے کی حالت میں کراچی سے اسلام آباد پہنچے اور جب بنی گالہ میں عمران خان کو ملے تو خان صاحب نے قہقہہ لگا کر پوچھا ’’اوئے تم کیسے جیت گئے؟‘‘ یہ صاحب سکتے سے باہر آئے اور بڑی مشکل سے مسکرا کر بولے جی جی میں بھی جیت گیا۔ قریب ہی علی زیدی کھڑے تھے انہوں نے بڑے دبنگ انداز میںکہا کہ میں نے تو چھ مہینے پہلے کہہ دیا تھا کہ ہم کراچی میں سویپ کریں گے لیکن میرے اپنے ہی مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے اور پھر علی زیدی نےسینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں تو2013میں بھی کراچی سے جیت گیا تھا لیکن میرا رزلٹ تبدیل کر دیا گیا تھا۔2013میں جو الزام علی زیدی لگاتے تھے 2018میں وہی الزام سب سے پہلے ایم کیو ایم نے لگایا لیکن جیسے ہی25جولائی کی سیاہ رات ختم ہوئی اور 26جولائی کی نئی صبح طلوع ہوئی تو اچانک ایم کیو ایم میں ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ ایم کیو ایم نے دھاندلی کے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرکے اہل کراچی و حیدر آباد کے دل باغ باغ کر دئیے جو اس اتحاد میں کچرے اور غلاظت سے نجات کے خواب دیکھ رہے ہیں۔2018کے انتخابات کے بطن سے جن حالات نے جنم لیا ہے انہوں نے کئی سنجیدہ اور فہمیدہ لوگوں کو رنجیدہ کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان تو نئی قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی پرانی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) اور اس سے بھی پرانی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نہیں مانی۔ اس الیکشن میں چودھری نثار علی خان کی جیپ کسی کھائی میں گر گئی، مصطفیٰ کمال کی ڈولفن شاہراہ فیصل کراچی پر پانی کے بغیر تیرنے اور بچوں کو کرتب دکھانے کی کوشش میں تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ سرفراز بگٹی کی گائے چوری ہوگئی۔