اسلام آباد (نیو ڈیسک )عام لوگوں سے لے کر زندگی کے مختلف شعبوں کی نام ور شخصیات تک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی رنگارنگ دنیا سے وابستہ ہر شخص اپنی تنہا یا کسی کے ساتھ تصویر بناکر کسی سوشل میڈیا سائٹ پر دیتا ہے اور بعض لوگ تو یہ عمل روز سرانجام دیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات سیلفی کی لت کو نفسیاتی عارضہ قرار دے چکے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ رجحانات سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنتا ہے، جیسے عمرے اور حج کے دوران لوگوں کے سیلفی بنانے پر کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی ایسا کرنا قابل مذمت قرار پاتا ہے۔ مثال کے طور پر کیا ایک جنازے پر، کسی قتل عام کی یاد گار کے ساتھ یا پھر ایک جلتے ہوئے مکان کے سامنے ’سیلفی‘ لینا حد سے تجاوز کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ مگر ہوا یہ ہے کہ یہ رجحان ظالمانہ چلن کا روپ دھار چکا ہے اور لوگ جنازوں کے ساتھ اور جائے حادثات پر بھی سیلفی بنانے سے گریز نہیں کرتے۔یہ سب حقیقی مثالیں ہیں اور ٹمبلر‘ کی ویب سائٹ پر سنجیدہ جگہوں پر سیلفیز کے عنوان کے نیچے اور نیویارک کے جیسن فیفر کی ’جنازوں پر سیلفیز‘ نامی ویب سائٹ پر موجود ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیلفی کے شوقین غم کے مواقع اور کسی کی موت کے موقع پر بھی سیلفی لینے سے گریز نہیں کرتے۔جیسن کی ویب سائٹ پر شائع یہ تصاویر وہ ہیں جنھیں سوشل میڈیا پر عوامی پذیرائی ملی ہے۔ ان میں سے ایک تصویر لاس ویگاس کے شہر میں ایک نوجوان کی زمین پر پڑے ہوئے ایک بے گھر شخص کے ساتھ سیلفی ہے، جس کے نیچے لکھا ہوا ہے ’بنا قمیص اور بے گھر سیلفی