اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار حامد میراپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ 25جولائی 2018ء کے انتخابات کا ہنگامہ ختم ہونے کے دس روز بعد عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات ہوئی تو وہ بڑے مطمئن، پرسکون لیکن پرعزم دکھائی دے رہے تھے ۔ملاقات کے دوران ان کے دفتر میں ہم دونوں کے علاوہ شیرو بھی موجود تھا لیکن شیرو ایک طرف
زمین پر پڑا بے فکری کی نیند میں کھویا ہوا تھا ۔شاید اسے نہیں پتہ کہ کچھ دن بعد وہ بنی گالہ کے پرفضا مقام سے اسلام آباد کی منسٹرز کالونی کے کسی ایسے گھر میں منتقل کر دیا جائے گا جو کہنے کو تو پرائم منسٹر ہائوس ہو گا لیکن وہاں بھاگ دوڑ کیلئے اسے کھلا میدان نہیں ملے گا۔عمران خان سے بہت سی باتیں ہوئیں لیکن یہ آف دی ریکارڈ تھیں ۔وہ میرے ساتھ اس زمانے کی باتیں کرتے رہے جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے اور پرویز مشرف ٹی وی چینلز پر انکی شکل دیکھ کر غصے میں آ جایا کرتے تھے۔ہماری گفتگو میں سیاست و صحافت کی کئی اہم شخصیات کا ذکر آتا رہا لیکن عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری سمیت کسی کے خلاف کوئی گفتگو نہیں کی۔ وہ مثبت باتیں کر رہے تھے میں نے انہیں بتایا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد انکی تقریر میں مسئلہ کشمیر کے ذکر پر سرینگر سے شکریئے کے پیغامات آئے ہیں وہاں کے لوگ بہت خوش ہیں لیکن نئی دہلی خوش نہیں نریندر مودی کی طرف سے مبارکباد کا فون آنے کے کچھ دنوں بعد دیامر میں دہشت گردی کے واقعات گہری سازش کا نتیجہ ہیں ۔دیامر کے علاقے چلاس میں اسکولوں پر حملے کے واقعات پر عمران خان کو بھی بہت تشویش تھی انہیں یہ بھی بتایا کہ شمالی علاقہ جات میں ڈیم اور کچھ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کے بعد سازشیں شروع ہو چکی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد آپ کو ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل کرنا ہے ۔انتخابی مہم میں مصروف رہنے کے باعث عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کئے گئے ڈیم فنڈ کے متعلق زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں تھا جب میں نے کچھ تفصیل بتائی تو عمران خان نے کہا کہ قومی مسائل کے حل کیلئے قوم کو متحد ہونا پڑے گا ۔