کراچی(این این آئی) ملک کی سیاسی صورتحال واضح ہونے سے ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ ماہرین معاشیات نے صورتحال میں مزید بہتری آنے کی نوید بھی سنا دی ہے۔خصوصی بات چیت میں فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے کہاکہ پرامن ماحول میں منعقد ہونے والے انتخابات سے کرنسی مارکیٹ میں اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے اور لوگوں نے محدود پیمانے پر کرنسی مارکیٹ کا رخ کیاہے۔
انہوں نے انتخابات میں پی ٹی آئی کی تاریخ ساز کامیابی پر عمران خان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کے کندھوں پر اہم قومی ذمے داریوں کابوجھ آگیا ہے لہذا اب انہیں فتح مکہ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے انتقامی سیاست کے بجائے مخالفین کو معاف کردینا چاہیے تاکہ انتخابی نتائج پر ممکنہ ردعمل سے امن وامان کی صورتحال برقرار رہے اور نئی معاشی پالیسیاں ترتیب دے کر ملک کو معاشی بھنور سے نکالنا چاہیے۔ملک بوستان نے بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی رسد کے مقابلے میں طلب انتہائی محدود ہوگئی جس سے امکان ہے کہ ڈالر کی قدرمیں مزید کمی آئے گی۔فاریکس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے روپے کی قدر میں کمی کی ذمہ داری اسٹیٹ بینک آف پاکستان پرعائد کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اسٹیٹ بینک کے سربراہوں کا کیس نیب کے حوالے کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معلوم ہونا چاہیے کہ ڈالر کی قیمت بڑھا کر کمایا جانے والا پیسہ کدھر گیا؟۔انہوں نے کہا سرحد بند ہونے سے کرنسی کی اسمگلنگ بند ہوئی ہے۔آئندہ دنوں میں روپے کی قدر مزید مستحکم ہو گی۔روپے کی قدر میں استحکام کے ضمن میں انہوں نے کہا کہ آنے والی حکومت سے سب کی امیدیں وابستہ ہیں۔آل کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے کہا کہ ڈالر کی قیمت پر تجارتی سرگرمیاں انحصار کرتی ہیں۔سرمایہ کاروں نے نئی حکومت سے توقعات وابستہ کرلی ہیں جب کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے گھبراہٹ کا شکا ر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آنے والی حکومت کو معیشت کے متعلق ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ماہر مالیات میر علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت کے آنے سے بھی پاکستان کے موجودہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پانچ دن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے اور دنیا کا کوئی ملک ہمیں درکار بڑی رقم نہیں دے سکتا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں چھ سال لگ سکتے ہیں۔آئی ایم ایف سے متعلق سوال کے جواب میں میرعلی نے کہاکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے بھی ٹھوس وجوہات چاہیے ہوتی ہیں۔آئی ایم ایف قرض دے کر بھاری سود وصول کرتا ہے جو عام آدمی کے لیے بوجھ بنتا اوراس کی مشکلات میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی تھی ، اسی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔میرعلی نے دعوی کیا کہ اب ڈالر بیگوں کے ذریعے ادھر سے ادھر نہیں جاسکے گا۔