اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔کراچی اور کچرا ایک دوسرے کی پہچان بن چکے ہیں ۔کراچی کا کچرا صرف گندگی کا ڈھیر نہیں رہا بلکہ اس گندگی میں سے کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی نکل آتی ہیں جنہیں یہ قوم بہت مقدس سمجھتی ہے۔ 25جولائی کے الیکشن سے قبل
پاکستانی قوم کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اسے بہت سوچ سمجھ کر بیلٹ باکس میں ڈالیں لیکن 25جولائی کے بعد بہت سے ووٹ کراچی میں کچرے کے ڈھیروں پر جلتے ہوئے دیکھے گئے۔کراچی کے شہریوں نے کچرے کے ڈھیروں پر جلائی جانے والی قوم کی کچھ مقدس امانتوں کو آگ سے بچا لیا تو پتہ چلا یہ ایسے بیلٹ پیپرز تھے جن پر پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر اور ایم کیو ایم پاکستان کے انتخابی نشان پتنگ کے سامنے مہریں ثبت تھیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیلٹ پیپرز کے تحفظ کیلئے فول پروف انتظامات کا دعویٰ کیا تھا لیکن جب یہ بیلٹ پیپرز کچرے کے ڈھیروں پر جلتے نظر آئیں گے تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ الیکشن کمیشن نے فول پروف انتظامات نہیں کئے بلکہ پوری قوم کو فول بنانے کے انتظامات کئے۔25جولائی کی رات میں کراچی میں جیونیوز کی الیکشن ٹرانسمیشن میں موجود تھا اور رات نو بجے کے بعد پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) ،متحدہ مجلس عمل، پی ایس پی، تحریک لبیک اور اے این پی سمیت کئی جماعتوں نے دھاندلی کے بارے میں اول فول شروع کر دی تھی۔مجھے 2018ءکے الیکشن کی رات 2013ء کا الیکشن یاد آ گیا۔2013ء میںتحریک انصاف دھاندلی کا شور مچا رہی تھی۔2013ء کے الیکشن کی رات لاہور سے تحریک انصاف کے امیدوار شفقت محمود نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ان کا نتیجہ روک لیا گیا ہے ۔
میں نے الیکشن ٹرانسمیشن میں کافی شور مچایا کہ شفقت محمود کا نتیجہ کیوں روکا گیا۔یہی معاملہ کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کو درپیش تھا جس جس کی بات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ گئی وہ بچ گیا باقی سب ہار گئے۔2018ء کے الیکشن کی رات تحریک انصاف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے چیخ رہی تھی۔رات ساڑھے گیارہ بجے مسلم لیگ (ن) کے
ایک سابق وزیرنے واٹس ایپ کال پر کہا کہ ہم لٹ گئے، برباد ہوگئے کوئی ہماری نہیں سن رہا پلیز ہمارے لئے آواز اٹھائو۔ دل چاہا کہ ان صاحب کو جواب میں کہوں کہ روک سکو تو روک لو لیکن پھر خیال آیا کہ بیچارا مشکل میں ہے۔ میں نے موصوف کو اتنا ضرور کہا کہ 2013ء کے الیکشن کی رات ایسی ہی چیخ وپکار تحریک انصاف والے کر رہے تھے اور جب میں ان کی شکایت عوام تک پہنچاتا تھا
تو آپ مجھ پر عمران خان سے دوستی نبھانے کا الزام لگاتے تھے اور اسحاق ڈار نے تو الیکشن کمیشن سے میری تحریری شکایت کر دی تھی۔ میں نے اس مسلم لیگی رہنما سے کچھ مزید تفصیلات لیکر انکی شکایت کا بھی ذکر کر دیا ۔25جولائی کی رات دھاندلی کی سب سے زیادہ شکائتیں بلوچستان سے آرہی تھیں۔2013ء میں بھی سب سے زیادہ شکائتیں بلوچستان سے آئیں اور کوئٹہ میں کچرے کے
ڈھیروں سے بیلٹ پیپرز ملے تھے ۔2013ء میں الیکشن سے پہلے ہی سب جانتے تھے کہ نواز شریف اگلے وزیر اعظم ہونگے۔ 2018ء میں الیکشن سے پہلے اکثر لوگوں کو پتہ تھا کہ عمران خان وزیراعظم ہونگے ۔ہمارے ملک میں وزیر اعظم کا فیصلہ الیکشن سے پہلے ہو جاتا ہے ۔الیکشن محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔جس طریقے سے 2013ء میں
نواز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا اسی طریقے سے 2018ء میں عمران خان کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے ۔2013ء میں بھی نوازشریف کو آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑی تھی۔ 2018ءمیں عمران خان بھی آزاد امیدواروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف مولانا اعظم طارق کے صاحبزادے معاویہ اعظم طارق کے دروازے پر جا پہنچی ہے۔مسلم لیگ (ن)
والوں کو چوہدری پرویز الٰہی یاد آ گئے ہیں۔یاد کیجئے کہ 25جولائی سے پہلے مسلم لیگ (ن) والے کیا کیا نہیں کہتے تھے۔کوئی کہتا تھا کہ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی ہمیں ڈھونڈے گی اور ہم نہیں ملیں گے۔کوئی کہتا تھا کہ 25جولائی کو نواز شریف کا بیانیہ پاکستان میں انقلاب برپا کر دے گا لیکن 25جولائی کے بعد مسلم لیگ (ن) ایک طرف پیپلز پارٹی سے جھک جھک کر مل رہی ہے
دوسری طرف چوہدری پرویز الٰہی کو سلیوٹ مار رہی ہے ۔کہاں گیا آپ کا انقلاب اور آپ کا نظریہ ؟ جب اس ناچیز نے پاناما اسکینڈل کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی بجائے کچھ سوالات کا صاف اور سیدھا جواب دیا جائے تو مریم نواز صاحبہ کا رویہ ہی بدل گیا اور پھر انکی سرکردگی میں چلنے والے سوشل میڈیا سیل نے میرے مرحوم والد کو بھی نہیں بخشا۔میں تو
ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا لیکن جو بگاڑ سکتے تھے ان کے فیصلے کی اطلاع اس ناچیز نے 30مئی 2016ء کو اپنے کالم میں آپ کو دیدی تھی جس کا عنوان تھا ’’مائنس تھری ‘‘ اس کالم میں بتایا گیا تھا کہ الطاف حسین کے بعد نواز شریف اور آصف زرداری کو مائنس کیا جائے گا۔نواز شریف مائنس ہو گئے زرداری صاحب کو مائنس کرنے کی کوشش ابھی جاری ہے ۔22جون 2017ء کو ’’مافیا‘‘
کے عنوان سے اپنے کالم میں بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر گڑبڑ شروع ہو چکی ہے اورکچھ وزراء کا خیال ہے کہ وزیراعظم ہائوس کا کنٹرول نواز شریف کے ہاتھ سے نکل کر ایک مافیا کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جو حکومت کو برباد کر دے گا۔کچھ دنوں بعد نواز شریف نااہل قرار دے دیئے گئے اور جن کا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ تھا وہ بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو 25جولائی 2018ء کو
ہوا وہ ہمیں ایک سال پہلے ہی نظر آرہا تھا اور اسی لئے میں نے 31جولائی 2017ءکو ’’روک سکو تو روک لو‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو روک سکو تو روک لو والا متکبرانہ انداز چھوڑ کر یااللہ یا رسول نواز شریف بے قصور والا عاجزانہ انداز اختیار کرنا چاہئے ۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عاجزی اختیار نہیں کی۔انقلاب کا نعرہ لگا دیا لیکن ماضی کی غلطیوں کا
اعتراف نہیں کیا۔نواز شریف اپنی انا کے گھوڑے پر سوار تھے اور چوہدری نثار ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔انا کے سوار کی عزت پھر بھی باقی ہے لیکن ہوا کے گھوڑے کا سوار عبرت کی مثال بن گیا ہے ۔گیارہ ستمبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’تینوں میں کوئی فرق نہیں ‘‘ اس میں لکھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی اقتدار کے لئے سمجھوتے
کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔تینوں میں کوئی فرق نہیں اور آخر میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ جو کچھ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ہوا یہی کچھ عمران خان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔میری دلی خواہش ہے کہ عمران خان کےساتھ وہ کچھ نہ ہو جو پہلے وزرائے اعظم کےساتھ ہوا۔میں نے 24جولائی 2017ء کو اپنے کالم کا عنوان ’’اگلے وزیر اعظم کا انجام‘‘ رکھا تھا اور لکھا تھا کہ
جب تک سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہونگی اگلے وزیر اعظم کا انجام وہی ہو گا جو نواز شریف کا ہوا ۔آج کے کالم میں دوبارہ عرض ہے کہ عمران خان ان غلطیوں سے پرہیز کریں جو نواز شریف کو جیل پہنچانے کا باعث بنیں۔دو دن پہلے مولانا فضل الرحمان نے آصف زرداری کو مسلم لیگ (ن) کی مدد سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ پیش کیا تو زرداری صاحب نے جواب دیا کہ عمران خان کو سبق سکھانا ہے
تو اسے وزیراعظم بننے دو ۔خان صاحب اس وزیر اعظم ہائوس کی طرف مت جائیں جہاں کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرتا۔ پرانے وزیر اعظم ہائوس کے ساتھ ساتھ پرانے وزرائے اعظم کی پرانی غلطیوں سے بھی پرہیز کریں ورنہ آپ کا انجام پچھلے وزرائے اعظم سے کچھ مختلف نہ ہوگا اور یہ انجام اگلے چھ ماہ میں نظر آ جائے گا۔