رُولا بیروت کی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی طالبہ تھی‘ یہ اپنے تیکھے نین نقش‘ کھلتے چہرے اور گورے رنگ کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی‘ عیسائی گھرانے میں جنم لینے والی رُولا کئی دلوں کی تسکین تھی مگر رُولا کو ایک ایسے فرد سے پیار ہو گیا جسے وہ چاہ کر بھی پا نہیں سکتی تھی‘ دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے‘ روزانہ ایک دوسرے سے ملتے تھے‘ گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے‘ دل ہی دل میں دونوں نے ایک دوسرے قبول بھی کر لیا تھا لیکن مذہبی اقدار اور سماجی دیوار ’’قبولیت‘‘ کی راہ میں حائل تھیں‘ مذہب کی تفریق اگرچہ ان دونوں کے بیچ کبھی حائل نہیں ہوئی‘ ان کا دین دھرم بس محبت تھا‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم لیکن انہیں علم تھامذہبی تفریق آگے چل کر ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔ رُولا کو حقیقتاً اشرف سے پیار ہو گیا تھا لیکن پیار کی راہ میں اگر مذہب ہی آڑے ہوتا تو پھر بھی ہزار راستے نکل سکتے تھے‘ یہ ان کی بدبختی تھی یا خوش قسمتی کہ دونوں کا وطن بھی ایک نہیں تھا‘ رُولا لبنان کی رہائشی تھی اور اشرف گھسے پٹے افغانستان کا شہری۔