اسلام آباد (این این آئی)العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بتایا ہے کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ نوازشریف العزیزیہ اسٹیل مل کے مالک ہیں۔ جمعرات کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی گئی ۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے جرح کے دوران واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی
جو نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل مل کا شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے یا وہ مل کا کاروبار یا معاملات چلاتے ہوں۔واجد ضیاء نے کہا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہر کرے کہ نواز شریف العزیزیہ کے مالی معاملات دیکھتے ہوں یا وہ العزیزیہ کے لیے بینکوں یا مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں واجد ضیاء نے کہا کہ دستاویزی ثبوت نہیں جو ظاہر کرے کہ نواز شریف نے العزیزیہ کی کسی دستاویز پر کبھی دستخط کیے ہوں۔سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ براہ راست کسی گواہ نے بیان نہیں دیا کہ نواز شریف العزیزیہ مل کے مالک ہیں جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ کیا کسی نے کہا کہ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل مل کے شیئر ہولڈر ہیں۔جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ شہباز شریف اور نواز شریف نے خود بالواسطہ اشارہ دیا کہ نواز شریف شیئر ہولڈر ہیں ٗ شہباز شریف نے کہا تھا کہ حسین نواز، نواز شریف کی طرف سے شیئر ہولڈر ہیں جب کہ رابعہ شہباز میری طرف سے اور عباس شریف شیئر ہولڈر ہیں۔واجد ضیاء نے کہا کہ شیئر ہولڈر بھی مالک ہونے کی ایک قسم ہے اور اگر شیئر ہولڈنگ کی بات آجائے تو واضح ہوجائے گی۔واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے بیان دیا کہ العزیزیہ میاں شریف نے قائم کی اور انہوں نے ہی حسین نواز، رابعہ شہباز اور عباس شریف کو شیئر ہولڈر بنایا۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نواز شریف کے ڈالر اکاؤنٹ میں ویلتھ اسٹیٹمنٹ پاکستانی روپے میں بطور تحائف ظاہر کی گئی اور یہ رقم حسین نواز کی طرف سے بطور تحفہ بھیجی گئی۔
واجد ضیاء نے کہا کہ 19 اکتوبر 2012 کو تین چیکس کے ذریعے 9 لاکھ ڈالر اور 15 نومبر 2012 کو 2 لاکھ ڈالر کی رقم نکلوائی گئی، ان چیکس میں ادائیگی پاکستانی روپوں میں کی گئی۔ جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ رقوم کی ادائیگی نواز شریف کے دوسرے بینک اکاؤنٹ میں پاکستانی روپوں میں ہوئی اور تاریخ ادائیگی کے دن کے ڈالر ریٹ کے مطابق کرنسی ایکسچینج کا اطلاق ہوا۔واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے ایکسچینج ریٹ کا تعین کیا اور یہ اندازہ لگانیکی کوشش نہیں کی کہ رقم درست ایکسچینج ریٹ کا اطلاق کر کے ظاہر کی کیوں کہ ایکسچینج ریٹ روزانہ بدلتے ہیں،
ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اسٹیٹمنٹ کا ٹیکس ریکارڈ کے ساتھ موازنے کی ضرورت نہیں، ہمارا کیس مختلف ہے۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحب آپ بیٹھے ہیں، واجد ضیاء خود موجود ہیں تو یہ کیوں بول رہے ہیں، واجد ضیاء بچے تو نہیں۔واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ 5 جولائی 2010 سے 30 جون 2011 تک جو ڈالرز حسین نواز کو ملے وہ تحفہ تھے اور بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق 11 لاکھ 50 ہزار 459 امریکی ڈالر حسین نواز کو ملے تھے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 18 اکتوبر 2012 تک یہ رقم امریکی ڈالر اکاؤنٹ میں پڑی رہی
اور نواز شریف نے یہ رقم ویلتھ اسٹیٹمنٹ مالی سال 11۔2010 میں ظاہر کرنا تھا۔واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ انکم اور ویلتھ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا آغاز یکم تا 30 جون ہوتا ہے اور سال 2011 کے سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے لیے یکم جولائی 2010 سے 30 جون 2011 کا عرصہ بنتا ہے۔جرح کے دوران واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں،جے آئی ٹی کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جونوازشریف کو شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے، ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ مل کا کاروبار، معاملات چلاتیہوں جب کہ ایسی بھی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ کیمالی معاملات دیکھتے ہوں۔