اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 205-16کے وفاقی بجٹ میں رعایتی ایس آراوز کی واپسی کے ذریعے 140ارب روپے کے لگ بھگ ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کے معاملے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔ ذرائع کے مطابق رعایتی ایس آراوز کے ذریعے مزید ایک سو چالیس ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کی ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ واپس لینے پرکا فیصلہ کر لیا ہے اور ان ایس آر اوز کا تعین کرکے ان کی فہرست کو حتمی شکل دی جا رہی ہے ۔جنہیں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ختم اور منسوخ کردیا جائیگا اور ان ایس آر او کے تحت حاصل ٹیکسوں کی چھوٹ اور رعایت واپس لے کر مروجہ شرح کے حساب سے ٹیکس اور ڈیوٹی عائد کردی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں یہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا بہت بڑا اقدام ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بھی اتفاق کیا ہوا ہے کہ رعایتی ایس آر اوز کو تین سال کے عرصے میں ختم کردیا جائیگا اور ایف بی آر سے ایس آرا وز کے ذریعے ٹیکسوں میں رعایت یا چھوٹ دنے کا اختیار واپس لے لیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اب یہ اختیار ای سی سی کو دیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے آئندہ مالی سال 2015-16 کے وفاقی بجٹ کیلیے موصول ہونے والی بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینا شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ روز(بدھ) بھی ایف بی آر)میں چیئرمین طارق باجوہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا ہے جس میں ایف بی آر کے ممبر کسٹمز نثار احمد نے پریزنٹیشن دی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں بجٹ تجاویز کی شارٹ لسٹنگ کی گئی ہے اس کے بعد ایف بی آر کی ٹیم وزارت خزانہ گئی ہے جہاں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی اس بارے میں بریفنگ دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں نیشنل ٹیکس نمبر کو ختم کرکے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبرز(سی این آئی سی) کو ہی این ٹی این کا درجہ بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کی بھی حتمی منظوری وزیر خزانہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی۔ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کو حتمی شکل دینے کیلیے کام تیز کردیا ہے کیونکہ یکم مئی سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ساتویں اقتصادی جائزے پر بھی مذاکرات شروع ہورہے ہیں اور دبئی میں شروع ہونے والے مذاکرات میں اقتصادی کارکردگی سمیت آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مجوزہ اقدامات کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور آئی ایم ایف حکام کو اس بارے میں بھی بریفنگ دی جائے گی۔