بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کیا شادی سے قبل جوڑوں کو ساتھ رہنا چاہیے؟

datetime 1  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) لباس کی خریداری سے لے کے گاڑی کے انتخاب تک ” ٹرائی“ کرنے کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے، تیار ملبوسات کی دوکان میں ”فٹنگ رومز“ موجود ہوتے ہیں جبکہ گاڑیوں کے شوروم گاڑی کی ٹیسٹ ڈرائیو میں مدد دیتے ہیں۔ کپڑے سے لے گاڑی تک جب ہر چیز کے انتخاب میں پہلے تجربے کو اہمیت دی جاتی ہے تو کیا اسی طرح شادی سے قبل ساتھ رہ کے شادی شدہ زندگی کا تجربہ کرنے کی ضرورت بھی ہے؟ یہ سوال مغربی ماہرین نفسیات کے ذہن میں برسوں سے کلبلا رہا ہے۔
شادی سے قبل جوڑوں کے ایک ساتھ رہنے کا تجربہ کرنے کی شرح مغرب میں تیزی سے بڑھی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں19برس سے44 برس کے بیچ کی خواتین میں شادی سے قبل اپنے ہونے والے شوہر کے ہمراہ رہنے کی تعداد 82فیصد بڑھی ہے۔1987میں صرف ایک تہائی خواتین یہ فیصلہ کرتی تھیں جبکہ 2010تک یہ شرح پانچ کے تہائی حصے تک پہنچ چکی تھی۔ بیس برق قبل کے مقابلے میں آج23فیصد خواتین شادی سے قبل ساتھ رہ کے تجربہ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ تحقیقات اگرچہ یہی تجویز کرتی ہیں کہ شادی سے قبل جوجوڑے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اپنی شادیوں سے خوش نہیں ہوتے اور ان میں علیحدگی کی شرح دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے تاہم تحقیق کے دوران سامنے آنے والے نتائج ملے جلے رجحانات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ماہرین کیلئے یہ امر معمے کی شکل اختیار کرچکا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو شادی کے معاملے میں ”ٹیسٹ ڈرائیو“ کے باوجود بھی اس رشتے کو متاثر کر ڈالتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہرین نے کچھ اندازے قائم کئے ہیں۔ پہلا اندازہ یہ ہے کہ شادی سے قبل ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کا ساتھ غیر ضروری حد تک طویل معلوم ہونے لگتا ہے۔ ہر جوڑے کا تعلق شادی کے کچھ عرصے کے بعد زوال کا شکار ہوتا ہے اور اگر یہ جوڑا شادی سے پہلے سے ہی ساتھ ہو تو ایسے میں ا س زوال کی آمد بھی شادی کے کچھ ہی عرصے کے بعد ہوجاتی ہے۔
اسی بارے میں ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ ممکنہ طور پر علیحدگی اختیار کرلینے والے جوڑوں میں دراصل پہلے سے ہی علیحدگی اختیار کرلینے کے رجحانات یا ایسے خیالات موجود ہوں اورانہوں نے موقع ملتے ہی اپنے خیالات پر عمل درآمد بھی کرڈالا۔ اس حوالے سے1974سے2000کے بیچ کی گئی ایسی ایک درجن تحقیقات شامل ہیں جن میں معلوم ہوا کہ دراصل وہ جوڑے جنہوں نے شادی سے قبل ایک ساتھ رہنے کے باوجود بھی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد اکتاکے شادی ختم کی، ان میں مذہبی رجحان اور معاشرتی دباو¿ کو محسوس کرنے کی شرح کم تھی اور وہ طلاق کو اتنا برا نہیں تصور کرتے تھے۔
اسی بارے میں ایک اور رائے یہ بھی موجود ہے کہ جب شادی سے قبل جوڑے ایک ساتھ رہتے ہیں تو وہ خود کوشادی کے بندھن کے دباو¿ سے آزاد پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے اس تعلق کو ختم کردینا آسان ہوتا ہے جو کہ دنیا و قانون کی نظروں میں کسی حیثیت کا حامل نہیں ہوتا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ شادی سے قبل ایک ساتھ رہنے والے جوڑوں میں علیحدگی کے رجحان کیلئے وجہ خواہ کوئی بھی تلاش کی جائے، درحقیقت یہ انسانی فطرت کیخلاف قائم ہونے والا تعلق ہے اور شائد اسی وجہ سے یہ ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…