اسلام آباد (نیوز ڈیسک )امینہ بہرامی تہران کی رہائشی ہیں اور 29ستمبر 1978کو ان کی پیدائش ہوئی۔ انہوں نے اسلامی آزاد یونیورسٹی کی جنوبی تہران برانچ سے الیکٹرانکس میں ایسوسی ایٹ ڈگری لی۔وہ الیکٹرانکس ٹیکنیشن کے طور پر کام کر رہی تھیں کہ ماجد مواحدی نامی شخص نے ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا اور ان کی دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں تاہم انہوں نے مجرم کو معاف کر دیا۔ ”نیویارک ٹائمز“ میں تھامس ارڈبرنک نے ان سے کی جانے والی گفتگو بیان کی ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران میں زیادہ تر لوگ مجرم کو معاف کرنے کے عمل کو اچھا سمجھتے ہیں یا ان کے خیال میں اسے بھی اندھا کرنا بہتر ہوتا تو امینہ بہرامی کا کہنا تھا کہ بہت سے عام لوگ کہتے ہیں کہ مجھے چاہیے تھا کہ میں بھی بدلے میں اسے اندھا کرتی لیکن آرٹسٹ اور انسان دوست لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ بدلہ لینے کا اختیار ملنے کے بعد اسے معاف کر دینے کے فیصلے کو بہت سے آرٹسٹک لوگ سراہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسے اندھا نہ کرنا خوبصورت عمل ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے خیال میں ماجد مواحدی کو معاف کرنے سے مجھے کوئی مالی مدد فراہم کی جائے گی لیکن مالی مدد کی بات آئی تو وہ حکام جنہوں نے مجرم کو معاف کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے بدلہ لے لینا چاہیے تھا۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے بہت کوشش کی اور ماجد مواحدی کو آنکھ کے بدلے کے قانون کے تحت اندھا کرنے کا حق حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھایا، مقدمے کی کارروائی کے ایک سال کے دوران ایران میں کہیں تیزاب گردی کا واقعہ پیش نہیں آیا تاہم جب فیصلے کے بعد میں نے اسے معاف کر دیا تو ملک بھر میں ایسے واقعات دوبارہ شروع ہو گئے۔میرا خیال ہے کہ اس وقت ہر کوئی میرے فیصلے کا منتظر تھا اور معاشرہ چاہتا تھا کہ میں ماجد مواحدی کو اندھا کر دوں، لوگوں اور حکام کی باتیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں کہ میں اسے اندھا کر دوں تاکہ تیزاب گردی کو روکا جا سکے، اب میں محسوس کرتی ہوں کہ جب میں نے اسے معاف کیا تو میں نے صرف اپنے بارے میں سوچا اور اس معاشرے کو فراموش کر دیا جس میں رہتی تھی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے ہماری روز مرہ زندگی کے دوران ہماری ایک طاقتور شخصیت ہمارے اندر چھپی رہتی ہے، ہم اس طاقت کے بارے میں اس وقت تک نہیں جانتے جب تک ہم کسی بڑی مصیبت میں مبتلا نہیں ہو جاتے اور پھر اس چھپی ہوئی طاقت کو باہر لائے بنا اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔بظاہر تو اس واقعے نے میری آنکھیں چھین لی ہیں مگر درحقیقت اس کی وجہ سے میری اندر کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔دنیا بھر کی لڑکیوں کیلئے بھی میرا یہ پیغام ہے جو ایران کی لڑکیوں کیلئے ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی بدولت ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں،میں لڑکیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ ”حسن خوابیدہ“ اب مکمل لڑکی کی تعریف پر پورا نہیں اترے گا بلکہ قابل ستائش لڑکیاں وہ ہیں جو کھلی آنکھوں کے ساتھ سماجی طور پر فعال ہیں۔یہ لڑکیاں کچھ کہنے کی اہل ہیں۔ ہاں، حسن بڑی چیز ہے اور دولت ہونا بھی کم طاقت نہیں لیکن جو چیز زندگی کو واقعی جاندار بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی کوشش سے اپنی زندگی کا بامقصد بنایا جائے۔