اسلام آباد(نیو زڈیسک) گذشتہ موسمِ گرما میں دو ماہ تک ایک غیر معمولی بینک ڈکیت نے امریکہ کو حیران و پریشان کر رکھا تھا۔
وہ ایک نوجوان، خوش لباس اور پست قد خاتون تھی۔ جس نے یکے بعد دیگرے کئی بینک لوٹے۔
یہ کہانی ہے بھارت کے شہر چندی گڑھ میں پیدا ہونے والی 25 سالہ سندیپ کور کی ہے۔
سندیپ کور ان دنوں امریکی شہر سیڈر کی آئرن کاؤنٹی کی جیل میں قید ہیں ۔
سندیپ کور والنشیا میں بینک آف ویسٹ سے ڈکیٹتی کرنے کے بعد فرار ہوئیں جہاں انھوں نے 21 ہزار دو سو ڈالر سے کچھ زیادہ کے لیے اپنی زندگی اور آزادی کو خطرے میں ڈالا تھا اور اس کے بعد ایریزونا، کیلیفورنیا اور یوٹاہ میں بھی بینک ڈکیتی کی۔
سندیپ کو بم کی دھمکیاں دے کر ڈکیتی کرنے کے انداز اور دلفریب حلیے سے متاثر ہو کر ایف بی آئی نے انھیں’بم شیل بینڈت‘یا پُرکشش خاتون ڈکیپ کا نام دیا تھا اور عوام سے ان کی گرفتاری میں مدد کی درخواست بھی کی گئی تھی۔
سندیپ کور نے بتایا کہ ان کے نام کا مطلب ہے ’سورج کی پہلی کرن‘۔ وہ سات برس کی عمر میں اپنی ماں اور بھائی جتندر کے ساتھ اپنے والد کے پاس امریکہ آئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ کیلیفورنیا کے بھارتی آبادی والے علاقے سین جوس پہنچے ’ لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے میں خود کو اجنبی محسوس کر رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2001 میں نائن الیون کے واقع کے بعد سے نسلی تعصب بڑھنا شروع ہو گیا۔ ’مجھے سکول میں دہشت گرد کہا جاتا اور سوال کیا جاتا کہ کیا تمھارے والد نے یہ کیا ہے؟‘
کور اور ان کے بھائی نے اس اذیت سے بچنے کے لیے سکول جانے کے خوف سے چھپنا شروع کر دیا لیکن انھیں سکول سے معطل کر کے سزا کے طور پر ایک بورڈنگ سکول بھیج دیا گیا۔
جب ان کی والدہ بیمار ہوئیں تو اس وقت سندیپ کی عمر 14 برس تھی۔ وہ وہاں ایک خوش اخلاق نرسنگ مینجر سے بہت متاثر ہوئیں۔ 19 برس کی عمر میں کور باقاعدہ پرفیشنل نرس بن چکی تھیں۔
جلد ہی انھوں نے طبی سہولیات فراہم کرنے والی ایک ایجنسی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا اور ایک ماہ میں چھ ہزار ڈالر کمانے لگیں۔
سنہ 2008 میں امریکی معیشت تنزلی کا شکار تھی۔ کور نے بتایا کہ انھوں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔
’میں یہ کرنا چاہتی تھی اور میں نے اپنی اور اپنے والدین کی تمام بچت اس میں لگا دی۔ میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ انشورنس بینکوں میں سرمایہ کاری کی اور آخر میں دو لاکھ ڈالر بنا لیے تھے۔‘
’کچھ عرصے بعد میں نے جوا کھیلا اور دو ہزار ڈالر کے قریب جیتے، یہ میرے لیے بہت لطف کا باعث تھا۔ میں نے بلیک جیک کھیلا اور جیتی گئی۔‘
کور نے بتایا کے انھوں نے ایسا ایک بار کیا پھر دوسری بار اور اس کے بعد وہ ہر ہفتے لاس ویگاس جانے لگیں۔ وہاں انھوں نے تاش کا کھیل ’بیکراٹ‘ دیکھا۔
’میں جب بھی بیکراٹ کو دیکھتی میرا دل خوش ہو جاتا۔اور دھوپ کے مہنگے چشمے میری کمزوری تھے۔ میں پہلے جا کر ان چشموں کی قیمت دیکھتی اور پھر اتنے ہی پیسوں کا جوا کھیلتی تھی اگر جیت جاتی تو خرید لیتی۔‘
ایک پرُکشش خاتون ڈکیت کا عروج و زوال
21
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں