پیرس(این این آئی)سائنس دانوں نے نئی تحقیق کی ہے کہ شمسی لہریں کیوں اٹھتی ہیں ،سائنسدانوں کو اب شاید یہ سمجھ آ جائے گا کہ شمسی توانائی کی لہریں کیسے اٹھتی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق سورج کی سطح سے شمسی لہریں خود ہی اٹھتی ہیں یا پھر ان کے ہمراہ پلازما (برقی طور پر چارجڈ گیس) کی بھی طاقتور لہریں ہوتی ہیں۔اگر یہ پلازما کے ذرات زمین تک پہنچ جائیں تو وہ سیٹلائیٹ نظاموں اور توانائی کی رسد کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اب فرانس میں محققین کا کہنا تھا کہ مختلف مقناطیسی سٹرکچرز کے آپس میں باہمی عمل کی وجہ سے یہ شمسی لہریں اٹھتی ہیں۔عام اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ یہ شمسی لہریں سورج کے مقناطیسی فیلڈ میں شدید ردوبدل کے نتیجے میں اٹھتی ہیں۔لیکن اگر اس عمل کو گہرائی سے دیکھا جائے تو سورج کے مقناطیسی فیلڈ میں دو قسم کے سٹرکچرز ہوتے ہیں جن میں سے ایک رسی نما اور ایک پنجرہ نما ہوتے ہیں۔رسی نما مقناطیسی سٹرکچرز پنجرہ نما سٹرکچرز کے اندر جکڑے گئے ہوتے ہیں اور اگر یہ پنجرہ مضبوط ہو تو مستحکم رہتا ہے اور اگر کمزور ہو تو رسی کی ردوبدل کو سہہ نہیں سکتا اور شمسی لہر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔محققین کو یہ معلومات 24 اکتوبر 2014 کو اٹھنے والی ایک شمسی لہر پر غور کر کے ملی ہیں جو کہ چند گھنٹوں میں ہی وجود آئی۔شمسی لہریں سورج کی باہری ترین سطح کورونا میں وجود میں آتے ہیں۔ کورونا سورج کی سطح سے حیران کن طور پر زیادہ درجہ حرارت پر ہوتی ہے اور اس کی وجہ ہمیں ابھی معلوم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں کو کورونا میں مقناطیسی فیلڈ کے بارے میں جانچنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔سی لیے سائنسدان فوٹو سفیئر نامی سورج کی سطح سے ملنے والی معلومات کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 1690 کلومیٹر اونچائی پر کورونا میں کیا ہو رہا ہے۔ناسا کی سولر ڈائنیمکس آبزویٹوری خلائی جہاز سے ملنے والے ڈیٹا کو سائنسدانوں نے سپر کمپیوٹرز کی مدد سے سمیولیشنز میں شامل کیا۔اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے سائنسدان اب اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کتنی شمسی تونائی ایک وقت میں خارج ہو سکتی ہے۔