لاہور(نیوز ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ نیب نے مجھے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے حوالے سے پیش ہونے کا نوٹس دیا،اگر چہ یہ نوٹس بدنیتی پر مبنی تھا تاہم اس کے باوجود میں نے قانون کی حکمرانی کیلئے نیب میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اگر چہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ نیب کو سوالات کے جوابات لکھ کربھی بھجوائے جاسکتے ہیں اورمیں بھی اس قانونی سہولت کا سہارا لے سکتا تھا،
لیکن میں نے اسے مناسب نہ سمجھا اور تقریباً سوا گھنٹے تک نیب کے دفتر میں نیب ٹیم کے سوالات کے جوابات دےئے اور بڑے ادب و حترام سے سارے معاملات ان کے گوش گزار کیے۔وزیراعلیٰ نے واضح طورپر کہا کہ آشیانہ سکیم اوراگر کسی اورمنصوبے میں بھی میرے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو جو چاہے سزا دے دینا لیکن یہ سنگین مذاق نہیں ہوناچاہیے۔احتساب کے نام پر سیاست اورانتقام کا سلسلہ بند ہونا چا ہیے۔اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ میں ایسے سنگین مذاق اوردھمکیوں سے ڈر کر عوام کی خدمت سے پیچھے ہٹ جاؤں گاتو یہ ان کی بھول ہے ۔ایسی کارروائیوں سے میں اورمیرے سیاسی رفقاء اورمیری ٹیم کبھی خوفزدہ نہیں ہوگی،یہ گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن جھک نہیں سکتی۔ہمیں کڑا اور بلاامتیاز احتساب تو منظور ہے لیکن احتساب کے نام پر انتقام ،سیاست اورمذاق کسی صورت گوارا نہیں۔اگر میرے خلاف ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو میں خود گھر چلا جاؤں گالیکن قوم کے اربوں کھربوں لوٹنے والوں سے نہ پوچھا جائے اورجھوٹ کے اعداد وشمار پر مبنی نوٹسز بھیج کر مجھے تختہ مشق بنایا جائے اورٹی وی سکرین پر نیب کے نوٹس کو دیکھا دیکھا کر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا جائے تو ایسانہیں ہوسکتا۔غریب قوم کے اربوں روپے بچانا اوران کی خدمت کرنا اگر جرم ہے تو میں یہ جرم ہزار بار کروں گا۔وزیراعلیٰ محمدشہبازشریف نے ان خیالات کا اظہار آج یہاں ماڈل ٹاؤن میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ نیب کی ٹیم کا پہلاسوال پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کومیرے دےئے گئے کسی حکم کے حوالے سے تھا کہ میں نے قانون اورضابطے کی خلاف ورزی کی، جس پر میں نے نیب کو جواب دیا کہ پنجاب گورنمنٹ رولز آف بزنس کے تحت وزیراعلی حکومت پنجاب سے متعلق کسی بھی معاملے /کیس کا ریکارڈ طلب کرکے اس پر حکم / رہنمائی صادر کرسکتے ہیں ۔پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی حکومت پنجاب کی 100 فیصد ملکیتی کمپنی ہے لہذا اس کے کام کا جائزہ لینا بھی حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے ۔مزیر برآں کمپنی کے میمورنڈم آف ایسوسی ایشن اور کارپوریٹ گورننس رولز 2013ء کے تحت کمپنیز کے بورڈ وقتاً فوقتاً حکومت کی طرف سے فراہم کردہ پالیسی / ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں ۔
پنجاب کے اعلی عہدیداران کا کمپنی کی کارکردگی کا جائزہ لینا کسی طورپر غیر قانونی عمل نہ ہے ۔پنجاب حکومت کی تمام پبلک سیکٹر کمپنیز کو مالی وسائل حکومت پنجاب اپنے خزانے سے فراہم کرتی ہے ۔ کمپنیز کے بورڈ ڈائریکٹرز اور CEOs بھی حکومت ہی تعینات کرتی ہے ۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ان کمپنیز سے کارکردگی کی بابت پوچھ گچھ کرنے کا بھی مکمل اختیار رکھتی ہے ۔ہم نے پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کم لاگت ہاؤسنگ سکیموں کیلئے بنائی تاکہ غریبوں ،یتیموں اوربے سہارا لوگوں کو اپنی چھت دی جاسکے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ چوہدری لطیف اینڈ سنز کمپنی کو آشیانہ اقبال میں انفراسٹرکچر یعنی سڑکوں وغیر ہ کی تعمیر کا ٹھیکہ دیاگیا تھا اس پر تاخیر کا علم ہونے پر میں نے میرٹ پر شفاف اورتیزرفتاری سے معاملے کو نبٹانے کی ہدایت کی ۔
وزیر اعلی نے بتایا کہ ہم نے کم آمدن خاندان اور بے سہارالوگوں کے لئے ہاؤسنگ سکیم آشیانہ کے نام سے شروع کی اور ہم نے آغاز میں 1700 گھر بنانے کا کنٹریکٹ کیا ۔ بڈرز سے 1700، 1600 اور 1000 روپے فی مربع فٹ کے ریٹ موصول ہوئے ۔ ہم نے سب سے کم بولی دینے والے ادارے سے مزید گفت و شنید کر کے 900 روپے فی مربع فٹ کا ریٹ طے کیا ۔ میں نے نیب حکام سے پوچھا کہ اس طرح جو ڈیڑھ ارب روپے کی بچت ہوئی ہے آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر قوم کا پیسہ بچانا اور کرپشن کا راستہ روکنے میں حدیں پھلانگنا جرم ہے تو میں ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ کروں گا،
کرپشن کا راستہ روکوں گا اورلائن کو ہزارمرتبہ کراس کرنا پڑا تو کروں گا ، میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔وزیر اعلی نے بتایا کہ 2007 ء میں جب پرویز الہی اور پرویز مشرف حکومت کر رہے تھے ۔ مشرف کے سیکرٹری کے کسی عزیز کو بغیر ٹینڈرنگ کے چنیوٹ کے قیمتی معدنی خزانوں کا 80 فیصد شیئر دے دیا گیا جس کی ابتدائی آمدن کا اندازہ تقریبا ساڑھے چار سو ارب روپے بنتا ہے ۔ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جسٹس منصور علی شاہ نے اس کیس کے فیصلے میں معاہدے کو کینسل کرتے ہوئے لکھا کہ نیب اس کی تفصیلی انکوائری کرے لیکن نیب نے اس کیس کو انکوائری کی بجائے ارشد وحید کو کلین چٹ دے دی اور معاہدہ کینسل کردیا ۔
حالانکہ معاہدہ کینسل ہونے سے کرپشن کی انکوائری نہیں روکی جا سکتی لیکن نیب نے اس کیس کو ہی سرد خانے میں ڈال دیا۔ میں نے 2014 ء میں نیب کو انکوائری کیلئے یاددہانی کا خط لکھا مگر بے سود ، دل خون کے آنسو روتا ہے ، اس غریب قوم کا پیسہ کیسے لوٹنے کی کوشش کی گئی۔وزیر اعلی نے کہا کہ میں بڑے ادب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے سندھ سے پوچھا ، کے پی کے یا دیگر صوبوں سے دریافت کیا کہ آپ نے کمپنیاں کیوں بنائیں؟ دوسری طرف نیب کے چیئرمین نے پنجاب سے 56 کمپنیوں کا ریکارڈ منگوا لیا ، شوق سے ریکارڈ منگوائیں ، اس سے بڑا دھوکا اور قوم کے زخموں پر نمک پاشی کا امر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعلی نے نیب میں پیشی سے متعلق بتایا کہ حکومت پنجاب کی سوفیصد ملکیتی انجینئرنگ کنسلٹینسی کمپنی ای سی ایس پی نے ڈیزائن اور تعمیراتی نگرانی کیلئے مجموعی طور پر 192 ملین روپے کی آفر دی ۔
بعد ازاں اس کمپنی نے صرف ڈیزائن کی مد میں 34.4 ملین روپے کی ڈیمانڈ کئے، نیسپاک نے ڈیزائن کی مد میں 35.7 ملین روپے کی بولی دی تھی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ نے نیسپاک کو 35ملین کی بجائے ای سی ایس پی کو ذمہ داری دی گئی جبکہ اس کی بولی 192 ملین روپے تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے وہ لیٹر دکھائیں کہ جس پر 192 ملین روپے پر ای سی ایس پی کو کنسلٹینسی ایوارڈ کی گئی ، نیب ٹیم نے تلاش کیا لیکن ان کے پاس ایسا لیٹر نہیں تھا۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس یہ لیٹر نہیں ہے ، میں آپ کو یہ لیٹر دکھاتا ہوں، جس کے مطابق ای سی ایس پی کو نیسپاک سے بھی کم نرخ پر 34.4 ملین روپے پر کنسلٹینسی دی گئی۔
وزیر اعلی نے بتایا کہ بغیر تحقیق کے یہ کہا گیا کہ چوہدری عبدالطیف اینڈ سنز کمپنی کے آشیانہ انفرسٹرکچر ڈویلپمنٹ کو کنٹریکٹ کو ختم کیا گیا حالانکہ کنٹریکٹ ختم نہیں کیا گیا بلکہ پی ایل ڈی سی اور چوہدری عبدالطیف اینڈ کمپنی کے درمیا ن کنٹریکٹ مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ 23 فروری 2013 ء کو چوہدری عبدالطیف اینڈ کمپنی کے ساتھ معاہدے کے چند دن بعد 20 فروری کو ٹینڈرنگ پروسیسنگ میں مبینہ بے قاعدگیوں کی شکایت پر میں نے اس وقت کے سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی ۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ای سی ایس پی کے پاس 51 کمپنیوں کی پیشکش سکروٹنی کیلئے بھجوائیں گئیں لیکن انہوں نے 52ویں کمپنی کی پیشکش یا درخواست خود ہی ڈائریکٹ دے دی جس کا انہیں اختیار نہیں تھا ۔
ہم نے باجوہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ایکشن کیلئے اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ہم نے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ ماڈل کے تحت بڈرز کو بلایا اور کہا کہ جو سب سے زیادہ گھر بنا کر دے گا ہم اسے پلازے وغیرہ بنانے کیلئے سرمایہ کاری کی اجازت دیں گے ۔ اس منصوبے کے تحت ہمیں 6300 تیار گھر ملنے تھے۔ جو غریب اور کم آمدن والے لوگوں یتیموں اور بیوگان کو دینے تھے۔مارچ 2017ء میں مجھے وہاں کام نہ کئے جانے کی شکایت ملی ۔ میں نے فورا معاملے کو حل کرنے فوری شفاف اور منصفانہ فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔اگر میں نے کسی کو یہ کنٹریکٹ دلوانا ہوتا تو میں میرٹ پر فیصلے کا حکم کیوں دیتا ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ ایک امریکی جنرل نے اپنے ملکی مفادات کیلئے جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا تھا۔
میں بھی یہ اعتراف کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ غریب قوم کی آخری پائی بچانے اور کرپشن کو روکنے کے لئے اب آخری حدیں پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج چیئرمین نیب جاوید اقبال صاحب سے میں درخواست کرتا ہوں کہ انتقام کا بازار گرم نہ کیا جائے ، احتساب کیا جائے اور احتساب کے نام پر سیاست نہ کی جائے۔ 1997 ء سے مختلف عوامی عہدوں پر متمکن رہا ہوں ۔ اگر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں خود گھر چلا جاؤں گا۔ یہ کیسا احتساب ہو رہا ہے کہ اربوں ، کھربوں کی کرپشن کے کیس توجہ کے منتظر ہیں اور سوفیصد جھوٹ پر مبنی اور مفروضے پر مشتمل امر پر نوٹس دے دیا جائے ۔ اسلام آباد سیف سٹی میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ، سب کو پتا ہے ۔
نندی پور پاور پراجیکٹ میں رشوت کیلئے بابر اعوان تین سال تک فائل دبائے بیٹھا رہا اور نندی پور کا کنٹریکٹ بغیر بڈ کے دے دیا گیا۔ زرداری صاحب کیا بادشاہ تھے ، چیچوکی ملیاں میں قانونی ضابطے پورے کئے بغیر اڑھائی ارب روپے دے دیئے گئے ، وہاں ایک میگا واٹ بجلی پیدا نہیں ہوتی، اڑھائی ارب روپے سے ایک اچھا ہسپتال بنتا ہے ۔ یہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں۔ اشرافیہ اربوں ، کھربوں کے قرضے لیکر کھا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو جبکہ غریب آدمی بنک کا 25 ہزار نہ دینے پر جیل جائے ۔ یہ نظام زمین بوس ہوجائے گا ۔ یہ قائد اور اقبال کے افکار کی نفی ہے ۔ اصل کرپشن پر پردہ پڑا رہنے کے مذاق ہوں گے تو سسٹم کیسے چلے گا۔
وزیر اعلی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اللہ تعالی نے 2018 ء میں دوبارہ موقع دیا تو لوٹی ہوئی دولت دنیا کے جس جس کونے میں ہوگی جان لڑا کر واپس لیکر آئیں گے ۔ احتساب کے سسٹم کو بدلیں گے۔ نیب کے انتقامی نظام کی جگہ احتساب کا شفاف نظام لائیں گے ۔جہاں کڑا ، بے لاگ ، شفاف اور ریا کاری کے بغیر احتساب ہو گا ، سیاست نہیں ہو گی۔ وزیر اعلی شہباز شریف نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی کو دل سے تسلیم کرتا ہوں ، اسی لئے میں نیب کے بلائے جانے پر پیش ہوا ، اب مجھے نوٹس آیا تو قانون کی حکمرانی کیلئے پھر پیش ہوں گالیکن اسے عوامی عدالت میں بھی لاؤں گا۔ وقت آئے گا راز کھول دوں گا۔
وزیر اعلی نے کہا کہ میں چیئرمین نیب سے دل کی اتھا گہرائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میں انکوائری کیلئے تعاون کروں گا، جب بھی بلائیں گے آؤں گا لیکن اگر شفاف احتساب نہ ہوا تو خدا نحواستہ خونی انقلاب آئے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ میرے سیاسی مخالفین آج نیب پر اس لئے مطمئن نظر آرہے ہیں کہ انہیں چائے پر نہیں بلایا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی منصوبوں میں قوم کے اربوں روپے بچا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ انفراسٹرکچر ہو یا توانائی کے منصوبے ہم نے غریب قوم کے وسائل بچائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں چیئرمین نیب سے ایک بار پھر درد دل سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا را اس ادارے کو ٹھیک کریں اور یہ ادارہ قوم کا حق واپس دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب اپنے عملے سے کہیں کہ وہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کاسا لیس نہ بنیں اور احتساب کو مذاق نہ بنائیں۔