اسلام آباد (نیوز ڈیسک )ایک تحقیق کے مطابق منگنی کی انگوٹھی پر جس قدر رقم خرچ کی جاتی ہے، مستقبل میں اس رشتے کے خاتمے کے امکانات اسی قدر بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین ان اعداد و شمار پر حیران تو ہیں تاہم ان کا مشورہ ہے کہ منگنی کی انگوٹھی کو زیادہ بڑا مسئلہ نہ بنائیں اور سستی انگوٹھی سے ہی کام چلانے کی کوشش کریں۔ یہ ایک دلچسپ تحقیق ہے تاہم ایموری یونیورسٹی کے دو محققین نے یہ جاننے کیلئے ایک علیحدہ سروے کیا کہ کیا کچھ ایسی علامات ہوسکتی ہیں جن کی مدد سے اس امر کی نشاندہی کی جاسکے کہ شادی کتنے عرصے تک قائم رہ سکے گی۔ دونوں محققین کے مرتب کردہ نتائج کی روشنی میں کوئی بھی جوڑا یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ طلاق کے کتنا قریب یا اس سے کس قدر فاصلے پر ہیں۔ ماہرین نے اس حوالے سے اپنے اعداد و شمار کو گراف چارٹس کی صورت میں پیش کیا ہے۔ان چارٹس میں سے پہلا اس امر کا جائزہ لیتا ہے کہ جوڑے نے شادی سے قبل کا کتنا عرصہ ایک ساتھ ملاقاتوں میں گزارا ہے۔ اس سوال کے جوابات سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ منگنی سے قبل تین برس تک کی دوستی شادی کے خاتمے میں39فیصد تک کمی کردیتی ہے۔ وہ جوڑے جو کہ منگنی سے قبل ایک سے دو برس تک ڈیٹ پر جاتے رہے ہوں، ان میں طلاق کی شرح بیس فیصد تک کم دیکھی گئی جبکہ ایک برس یا اس سے کم عرصے ڈیٹس پر جانے والے جوڑوں میں سب سے زیادہ طلاق کی شرح پائی گئی۔
اسی طرح دولت بھی گھر بچانے کیلئے ایک اہم عنصر محسوس کی گئی۔ وہ جوڑے جن کی سالانہ آمدن سوا لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی، ان میں طلاق کی شرح نصف سے بھی کم پائی گئی۔ سالانہ پچیس ہزار ڈالر سے کم کمانے والوں کی نسبت پچیس سے پچاس ہزار کے بیچ کی آمدن والے جوڑوں میں 31فیصد کم طلاق کی شرح پائی گئی۔ یہ شرح75 ہزار ڈالر سالانہ والے جوڑوں میں39فیصد تک کم، ایک لاکھ ڈالرز تک کمانے والوں میں بھی اسی قدر جبکہ سوا لاکھ سے زائد کمانے والوں میں یہ شرح 51 فیصد سے بھی کم پائی گئی۔
اس موقع پر ماہرین نے یہ بھی محسوس کیا کہ مذہبی وابستگی شادی بچانے میں اہم کردار کرتی ہے۔ وہ جوڑے جو کبھی گرجا نہیں جاتے، ان کی نسبت کبھی کبھار جانے والے جوڑوں میں طلاق کی شرح دس فیصد زیادہ جبکہ مسلسل جانے والے جوڑوں میں46فیصد کم پائی گئی۔
ماہرین نے جب یہ جاننا چاہا کہ جیون ساتھی کی جائیداد یا چہرے کے خدوخال شادی بچانے میں کس قدر اہمیت رکھتے ہوں تو معلوم ہو اکہ وہ جوڑے جن میں شادی کے بندھن میں بندھنے کی بڑی وجہ خدوخال تھے، ان میں چالیس فیصد طلاق کی شرح زیادہ پائی گئی بنسبت ان جوڑوں کے جو کہ خدوخال اور دولت کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ جوڑے جنہوں نے دولت کو ترجیح دی، ان میں 18فیصد طلاق کی زیادہ شرح پائی گئی۔
ماہرین کی تحقیق کا ایک دلچسپ پہلو تقریب کے شرکا بھی تھے۔ یعنی کہ جتنے زیادہ تقریب کے شرکا تھے، طلاق کی شرح اسی قدر کم تھی۔ حتیٰ کہ وہ جوڑے جن کی شادی میں دو سو سے زائد لوگ تھے، ان میں طلاق کی شرح92فیصد تک کم پائی گئی،100سے 200کے بیچ مہمان بلانے والوں میں 84فیصد جبکہ پچاس سے سو مہمانوں کے بیچ مدعو کرنے والے جوڑوں میں طلاق کی شرح69فیصد پائی گئی۔ 11سے 50مہمانوں والی تقریب منعقد کرنے والے جوڑوں میں طلاق کی شرح56فیصد پائی گئی جبکہ ایک سے دس کے بیچ مہمان والے جوڑوں میں طلاق کی شرح35 فیصد کم پائی گئی۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ دعویٰ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر شادی بچانی ہے تو زیادہ سے زیادہ مہمان شادی پر مدعو کریں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ مہمان بلانے والے جوڑون میں طلاق کی شرح اگرچہ کم تھی تاہم وہ جوڑے جنہوں نے شادی کی تقریب پر زیادہ اخراجات کئے تھے، ان میں طلاق کی شرح بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی۔20ہزار سے زائد خرچ کرنے والے افراد میں طلاق کا46فیصد زیادہ خطرہ پایا گیا۔ وہ جوڑے جنہوں نے پانچ ہزار تک خرچہ کیا ، ان میں18فیصد تک طلاق کی شرح کم تھی، 20ہزار تک خرچ کرنے والے جوڑوں میں29فیصد تک زیادہ طلاق کا امکان موجود تھا۔
وہ جوڑے جو شادی کے بعد ہنی مون پر گئے، وہ بھی نہ جانے والے جوڑون کے مقابلے میں اپنی شادی کو بچانے میں41فیصد تک کامیاب رہے۔
طلاق سے بچنا ہے تو مہمانوں کو زیادہ بلائیں
24
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں