لاہور( مانیٹرنگ ڈیسک)پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے کہا ہے کہ شہباز شریف عرش سے زمین پر آئیں اور دیکھیں، خواتین سڑکوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں، پنجاب میں جرائم81فیصد بڑھ گئے، شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں،صوبے میں کمپنی راج لگا کر وسائل کا بغ دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، لوگ آرسینک اور انسانی فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور،گندے پانی سے سالانہ11لاکھ اور پیپاٹائٹس سے صرف پنجاب میں23ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، بیروزگاری کے خاتمے کیلئے کوئی اقدامات نہیں،
ہسپتالوں میں ادویات ہیں نہ بنیادی سہولتیں، کسان رل گئے،فصلیں جلانے اور خودکشیوں پر مجبور ہیں، مفاد عامہ کے منصوبوں کیلئے مختص رقم سڑکوں پلوں پر خرچ کی جا رہی ہے۔۔ وہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں حکومت پنجاب کی ایک سالہ کارکردگی پر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اس موقع پر انکے ہمراہ رکن صوبائی اسمبلی احمد خان بچھڑ، ڈاکٹر مراد راس، ڈاکٹر سعدیہ سہیل، ڈاکٹر نوشین حامد، شنیلا روتھ، حافظ ذیشان رشید بھی تھے۔ صاف پانی پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے کہا کہ خادم اعلیٰ صاحب آپ اپنے طویل دور اقتدار میں عوام کو صاف پانی نہ فراہم کر سکے، آپ کیسے خادم ہیں؟ایک سال کے دوران اڑھائی لاکھ بچوں سمیت11لاکھ افراد زہریلا پانی پینے سے ہلاک ہو جاتے ہیں، آپ نے کیا کیا؟ اس قوم کے سات صاف پانی تو نہ دے سکے الٹا صاف پانی منصوبے کے10ارب روپے سڑکوں اور پلوں پر خرچ کر دیئے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ پنجاب کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔ میاں محمودالرشید نے زراعت اور کسانوں، کاشتکاروں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے جہاں شعبہ تعلیم، صحت، صاف پانی کو ہمیشہ نظرانداز رکھا اور کبھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا وہیں زراعت کے شعبے کو بھی تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ کبھی کسانوں کو پیکیج، کبھی بلاسود قرضے کا لالچ دیا گیا
لیکن پانی کی طرح زراعت پر حکومت آج تک کوئی پالیسی نہ بنا سکی ایک بنانا سٹیٹ کی طرح مل کو چلایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا کسان فاقوں، خودکشیوں اور فصلوں کو آگ لگانے پر مجبور ہے۔ کسان جو کبھی پورے ملک کا پیٹ پالتے تھے آج خود بھوکے اور انکے بچے تعلیم سمیت بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ گنے کا سرکاری ریٹ تو180روپے مقرر کیا گیا لیکن 130اور140روپے میں لیا جا رہا ہے، شوگر مافیا اور حکومتی مانیٹر نگ ٹیمیں ملکر کسانوں کا استحصال کر رہی ہیں۔
صحت پر بات کرتے ہوئے میاں محمودالرشید نے کہا کہ 1000 میں سے 93 بچے 5 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے 75 بچے ایک سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچ پاتے۔ رپورٹ کے مطابق 38 فیصد بچے آج بھی حفاظتی ٹیکہ جات سے محروم ہیں۔ پنجاب میں 29 فیصد بچوں کو خسرہ جیسی موذی بیماری سے بچأ کی ویکسین میسر نہیں ہے۔ زچہ بچہ سینٹرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کمی ہے۔ 22 فیصد خواتین تک لیڈی ہیلتھ ورکرز نہیں پہنچ پاتیں جبکہ 100 فیصد کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔
36 فیصد حاملہ خواتین بغیر ماہر زچگی بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ ویسے تو پنجاب میں صحت کے دو وزیر ہیں اور وزیراعلیٰ خود کو خادمِ اعلیٰ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ صوبے کے تمام ہسپتالوں میں بلا امتیاز صحت کی سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں اور یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے، صوبے کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت کے بڑے اور نامور ہسپتالوں کی راہداریوں میں انسانیت سسک رہی ہے، ننھے بچوں پر موت کے سائے لہلہاتے نظر آتے ہیں،ان کے مفلس و نادار والدین لہو کے آنسورورہے ہیں
مگر پرسانِ حال کوئی نہیں، سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی ایک خواب ہے جبکہ الٹراساؤنڈ سمیت دیگر ٹیسٹوں کے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ لاہور کے میو ہسپتال میں صرف ایک ماہ کے دوران12بچے خناق سے ہلاک ہوئے، صرف ایک ہفتے دوران ضلع ساہیوال میں گیسٹرو سے 3افراد جاں بحق ہوئے۔ جنوبی پنجاب میں موسمی انفلوئنزا اے ایچ ون این ون خطرناک وبائی صورت اختیار کرگیا اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہوگئی۔
چلڈرن ہسپتال لاہور میں دو بچوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کئے گئے جو ناکام رہے، پولیو کا پہلا کیس بھی پنجاب میں رجسٹر ہوا، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زائد المیاد خسرہ ویکسین سے تین بچے ہلاک ہو گئے، پنجاب کے چودہ اضلاع کی ایک ہزار سے زائد بی ایچ یو اور رولر ہیلتھ سنٹرز کو چلانے کا معاہدہ ختم کر دیا گیا، حاملہ خواتین کیلئے شروع کی جانیوالی رولرز ایمبولینس سروس کو آؤٹ سورس کر دیا گیا۔
میو ہسپتال میں پیڈز سرجری وارڈ میں گزشتہ 3سال سے کوئی پروفیسر ہی تعینات نہ کیا جاسکا، نومولود بچوں کو سرجری کے حوالے سے2سال کا ٹائم دیا جارہا ہے ۔پیڈز سرجری کی ایمرجنسی میں کوئی ایک نونیٹل وینٹی لیٹر ہی موجود نہیں جبکہ200بیڈز کے واڈ میں صرف6وینٹی لیٹر ز دستیاب ہیں۔بچوں کو ایمرجنسی کی صورت میں ونیٹی لیٹر کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک اور انتہائی تشویشناک بات یہ بھی ہے
کہ پاکستان میں پولیو کی جو ویکسین پلائی جاتی ہے اس میں کون کونسے اجزاء شامل ہیں اسکے ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری ہی نہیں، صحت کے صوبائی و وفاقی وزراء، محکمہ صحت، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سمیت کسی کو نہیں پتہ پولیو سے نجات کیلئے ہم اپنے بچوں کو جو ویکسین پلا رہے ہیں اس میں کیا ہے؟ اسلام آباد میں واقع نیشنل بائیولوجیکل لیب میں بھی صرف ابتدائی نوعیت کے BASIC ٹیسٹ ہی کئے جاتے ہیں، انکا کہنا تھا کہ ملک کے20شہروں میں ایڈز کے 39 ہزار سے بڑھ کر
ایک لاکھ32ہزار سے تجاوز کر گئی، پنجاب میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے جو 60 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ میں یہ تعداد 52 ہزار ہے اور خیبرپختون خوا میں یہ تعداد 11 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 3 ریکارڈ کی گئی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 6 ہزار بتائی گئی ہے۔
میاں محمودالرشید نے کہا کہ پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں10ہزارسے زائد نرسوں کی کمی ہے،پنجاب کے ہسپتالوں میں 10بیڈز پر ایک اور فی وینٹیلیٹر2نرس کی تعداد کی بجائے پورے آئی یو سی میں ایک نرس سے کام چلایا جارہا ہے اور ایمرجنسی میں ایک سٹاف نرس کو 100سے زائد مریضوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق پنجاب بھر میں سرکاری ہسپتالوں میں10ہزار نرسوں کی کمی ہے۔ 10بیڈز پر 1جبکہ 1وینٹی لیٹر پر 2نرسوں کو خدمات سرانجام دینی چاہیے مگر عملی طورپر صورتحال کچھ اور ہی ہے۔
مفاد عامہ کے منصوبوں کے فنڈز کی منتقلی پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے کہا کہ پنجاب حکومت نے میگاپراجیکٹس کے لئے دیگراضلاع کے منصوبوں کی قربانی دے دی، صاف پانی، سرکاری سکولوں کے کلاس رومز، کسانوں ،انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ کے 30 ارب روپے لاہور کے میگا پراجیکٹ کو منتقل کر دیئے گئے جن میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں صاف پانی کے مختص دس ارب روپے سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہونگے۔پنجاب کے کسانوں کا پانچ ارب روپے اورینج ٹرین منصوبے کو منتقل کردئیے گئے ہیں۔
شیخوہ پورہ میں قائداعظم اپیرل پارک کے چار ارب روپے آب صحت پروگرام کو منتقل کیے گئے ہیں۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں سیف سٹی پراجیکٹ کی دو ارب روپے کی رقم لاہور میں ایک موریہ پل کی تعمیر کے لیے منتقل کیے گئے ہیں۔دیگر اضلاع میں ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا ڈیڑھ ارب فیصل آباد میں منتقل کیے گئے ہیں۔ پنجاب بھر میں طلبا کے لیے اضافی کالا رومز کی تعمیر کے تین ارب روپے سی ٹی ڈی کے دفتر ، اربن ڈویلپمنٹ کی اسکیموں کو منتقل کیا گیا ہے۔ محکمہ خزانہ پنجاب اور پی اینڈ ڈی بورڈ کے حکام کا موقف ہے
یہ فنڈز ان منصوبہ جات سے منتقل کیے جارہے جو سست روی شکار ہیں۔کرپشن و مالی بے ضابطلگیوں پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے کہا کہ کرپشن کی شکایات میں پنجاب چاروں صوبوں پر بازی لے گیا۔اینٹی کرپشن محکموں اورایجنسیوں کی رپورٹ ایک سال کے دوران پنجاب اینٹی کرپشن کوکرپشن کی 20ہزار960، سندھ 4ہزار140، خیبر پختونخواہ 2ہزار222جبکہ بلوچستان میں صرف 136شکایات موصو ل ہوئیں۔صرف اینٹی کرپشن لاہور ریجن کو سال 2017ء میں بدعنوانی کے
خلاف مجموعی طور پر 4050 شکایات موصول ہوئیں، جن میں محکمہ خزانہ، ایکسائز، محکمہ مال، ضلعی انتظامیہ، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور پولیس سمیت مختلف صوبائی محکموں کے افسران و ملازمین کے خلاف شامل ہیں، پنجاب میں جرائم کی شرح بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہو، بچوں اور خواتین کیخلاف جرائم ہو یا کرپشن، پنجاب کا ہر منفی کام میں پہلا نمبر آنا حکمرانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہے، پنجاب پولیس95ارب سے زائد بجٹ استعمال کرنے کے باوجود جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہوئی۔
مجموعی طور پر جرائم کی شرح میں81فیصد اضافہ ہوا۔دسمبر کے پہلے پندرہ ایام تک صوبہ بھر کے تھانوں میں قتل، اقدام قتل، اغوا، اغوا برائے تاوان، ریپ اور دیگر جرائم کے 3لاکھ 89ہزار 9سو 87مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ ڈکیتی، راہزنی، نقب زنی، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، دیگر وہیکلز و مویشی چوری و چھپنے کے 1لاکھ 13ہزار 72مقدمات درج ہوئے۔ قتل کے 6ہزار 1سو 71، اقدام قتل کے 7ہزار 6سو 13، اغوا کے 15ہزار 5سو 38، اغوا برائے تاوان کے 1سو 53، ریپ کے 26سو
19جبکہ گینگ ریپ کے 2سو 13مقدمات درج ہوئے۔ صوبہ بھر میں گاڑیاں موٹر سائیکلیں اور دیگر وہیکلز چوری و چھیننے کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔پنجاب پولیس اب تک 98 مغوی بچوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی، انکا کہنا تھا 2017 جنوری تا جون کے دوران 1764 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق سال 2017 جنوری تا جون کے دوران 1067 بچیاں جبکہ 697 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ پنجاب میں خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات میں
اس سال 17 فیصد اضافہ ہوا۔ خواتین پر تشدد کے 7317 واقعات رپورٹ ہوئے، بد اخلاقی کے1111مقدمات اجتماعی بد اخلاقی کے116مقدمات رپورٹ ہوئے جبکہ2ہزار6سو سے زائد بد اخلاقی اور اجتماعی بد اخلاقی کے واقعات میں پولیس نے مقدمات درج کرنے کی بجائے مدعیوں اور ملزمان میں صلح کروائی۔ صرف لا ہور میں خواتین کے ساتھ بد اخلاقی کے210جبکہ اجتماعی بد اخلاقی کے22واقعات رپورٹ ہوئے
جبکہ رجسٹر ڈ نہ ہونے والے مقدمات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تعلیم پر بات کرتے ہوئے میاں محمودالرشید نے کہا کہ پنجاب حکومت نے دانش سکولوں کا ڈھونگ رچایا، پرائیویٹ سیکٹر سے اشتراک کیا گیا تمام تر ڈراموں کے باوجود حکومت2017ء میں سرکاری سکولوں میں6لاکھ طلبہ کی انرولمنٹ کا ہدف پورا نہ کر سکے، سال بھر میں صرف23فیصد انرولمنٹ ہو سکی۔ ماضی کی طرح2017ء میں بھی طلبہ نے سرکاری سکولوں کی بجائے نجی تعلیمی اداروں کا رخ کیا اس کے برعکس خیبر پختونحوا میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے
زائد بچے پرائیویٹ سکولوں سرکاری تعلیم اداروں میں داخل ہوئے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران25ہزار طلبہ سرکاری سکول چھوڑ کر پرائیوٹ سکولوں میں چلے گئے پنجاب اور کے پی کے میں موازنہ کیا جائے تو پختونخوا میں مجموعی طور پر13.15فیصد گراف اوپر گیا۔ حکومت پنجاب سے سوال پوچھتا ہوں اگر وہ بچوں کے روشن مستقبل میں سنجیدہ ہے تو بجٹ میں مختص سرکاری سکولوں میں اضافی کلاس رومز کے کے تین ارب روپے میگا پراجیکٹس پر کیوں خرچ کئے۔ انہوں نے کہا
کہ وزیراعلیٰ صاحب تعلیم امتحانی ڈیٹ شیٹ پر اپنی فوٹو لگانے سے نہیں عملی اقدامات سے فروغ پاتی ہے۔ شہباز شریف پر شدید تنقید کرتے ہوئے میاں محمودالرشید نے کہا کہ ایک طرف پنجاب حکومت1ارب سے زائد کی مقروض ہے تودوسری جانب صوبے میں عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر صوبے کے وسائل کو اللے تللوں پر اڑایا جا رہا ہے۔ جولائی2017ء تک سرکاری محکموں میں مہمانوں کی خاطر مدارت اور تحائف پر مختص بجٹ سے 22 کروڑ زائد خرچ کئے گئے جبکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس نے 4 گنا زیادہ رقم خرچ کی ۔